آج سے 220 سال قبل 4 مئ 1799 کو میسور کے حکمراں ٹیپو سلطان انگریزوں سے اپنی سلطنت کا دفاع کرتے ہوئے جاں بحق ہوئے تھے.
ٹیپو سلطان اپنی زندگی میں کبھی کولکاتا نہیں آئے لیکن کولکاتا کا ٹیپو سلطان سے گہرا ربط ہے تیسرے ایگلو میسور جنگ کے بعد ٹیپو سلطان اور انگریزی حکومت کے درمیان ایک ٹریٹی کے بعد انگریزوں نے سرنگا پٹنم کا محاصرہ ختم کیا. اس معاہدے کے تحت ٹیپو کو اپنی سلطنت کا ایک بڑا حصہ انگریزوں کو دینا پڑا اور ان کے دو بیٹوں کو بھی جلا وطن کرکے کولکاتا بھیج دیا گیا. دو سال بعد جرمانہ ادا کرنے پر ٹیپو سلطان کے دونوں بیٹوں کو انگریزوں نے واپس میسور بھیج دیا لیکن 1806 کے ویلور میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد انگریزی حکومت نے اس بغاوت کے لئے ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے پورے خاندان کو کولکاتا منتقل کردیا.
ٹیپو سلطان کے خاندان کے تقریباً 300 افراد کو کولکاتا کے بالی گنج علاقے میں مٹی کے جھونپڑیوں میں لاکر بسا دیا. شروعاتی دنوں میں ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. یہاں تک اپنی طرز زندگی اور شاہی جاہ و جلال سے بھی سمجھوتہ کرنا پڑا لیکن پھر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کی زندگی میں معمول کی طرف لوٹنے لگی اور ان کے ساتھ ایک نئے شہر بھی اپنی منزلیں طے کر تا رہا اور پھر انگریزی حکومت کی طرف سے ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کے لئے وظیفہ مقرر کردیا گیا. ٹیپو سلطان کے بیٹوں کو انگریزی حکومت کی جانب سے زمین و جائداد بھی دی گئیں. ان کے ایک بیٹے غلام محمد شاہ نے کئی یادگار عمارتیں تعمیر کرائی جن میں ٹیپو سلطان شاہی مسجد سب سے اہم ہے. پرنس غلام محمد 1832 میں چورنگی میں ٹیپو سلطان کی یاد میں شاہی مسجد تعمیر کروائی اور پھر ٹالی گنج میں بھی ٹیپو سلطان شاہی مسجد تعمیر کرائی دونوں مسجدوں کی طرز تعمیر ایک جیسی ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنی دور اندیشی سے کئی اسٹیٹ بھی بنائے کولکاتا کا لعروف ٹالی گنج کلب اور رائل کلکتہ گلف کلب بھی پرنس غلام محمد وقف اسٹیٹ کا حصہ ہے اس کے علاوہ کالی گھاٹ میں ایک شاہی قبرستان ہے جس پر غیر قانونی قبضہ ہو چکا ہے
مغربی بنگال کے کولکاتا میں آج بھی ٹیپو سلطان کے اہل خانہ موجود ہیں جو ٹالی گنج اور آس پاس کے علاقے میں رہتے ہیں کچھ کے حالات اچھے ہیں تو کچھ بے سر و سامانی کے لمحات گزار رہے ہیں پرنس غلام محمد شاہ نے ٹرسٹ بناکر شاہی خاندان کے زمین و جائداد کو اس ٹرست کے ماتحت کردیا آج کولکاتا میں موجود تمام شاہی زمین وجائدا پرنس غلام محمد ٹرسٹ کے ماتحت ہے اور ان جائدادوں سے ہونے والی آمدنی کو میسور فیملی فنڈ کمیٹی کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے جو ٹیپو سلطان کے اہل خانہ میں تقسیمِ کی جبکہ اس فنڈ سے غرباء کی بھی مدد کی جاتی ہے. کولکاتا میں ٹیپو سلطان کے بیٹوں پرنس غلام علی شاہ، پرنس فتح علی شاہ، کریم علی شاہ حیدر علی شاہ، اور پرنس انور علی شاہ کے اہل خانہ آج بھی پرنس انور علی شاہ روڈ اور چیتلا روڈ اور کچھ کولکاتا کے خضر پور میں رہتے ہیں. پرنس غلام علی وقف اسٹیٹ کے تمام معاملات اور قانونی کارروائی کی نگرانی کرنے والے صاحب زادہ محمد شاہد عالم سے ٹیپو سلطان کی شہادت کے 220 سال مکمل ہونے کے موقع پر ای ٹی وی بھارت نے ٹیپو سلطان کے اہل خانہ سے خصوصی بات چیت کی اور ان سے ٹیپو سلطان اور ان کے اہل خانہ کی کولکاتا کی زندگی کے متعلق جاننے کی کوشش کی محمد شاہد عالم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ پرنس سبھان کے بیٹے ہیں اور وہی پرنس غلام محمد وقف اسٹیٹ کے سارے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ جب ویلور کی فوجی بغاوت کے لئے ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کو مورد الزام ٹھہرا کر پورے خاندان کو کولکاتا منتقل کر دیا گیا تو ان کو کولکاتا کے ٹالی گنج میں بسا دیا گیا اس وقت یہ علاقہ جنگلات سے بھرے ہوئے تھے اور ان کے رہنے کے لئے مٹی کی جھونپڑیاں دی گئیں تھیں. شاہد عالم میسور فیملی فنڈ کمیٹی کے سیکرٹری ہیں اور پرنس غلام محمد ٹرسٹ کے معاون ٹرسٹی بھی ہیں. انہوں نے بتایا کہ پرنس غلام محمد 1832 میں چورنگی میں ٹیپو سلطان کی یاد میں شاہی مسجد تعمیر کروائی اور پھر ٹالی گنج میں بھی ٹیپو سلطان شاہی مسجد تعمیر کرائی دونوں مسجدوں کی طرز تعمیر ایک جیسی ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنی دور اندیشی سے کئی اسٹیٹ بھی بنائے کولکاتا کا لعروف ٹالی گنج کلب اور رائل کلکتہ گلف کلب بھی پرنس غلام محمد وقف اسٹیٹ کا حصہ ہے اس کے علاوہ کالی گھاٹ میں ایک شاہی قبرستان ہے جس پر غیر قانونی قبضہ ہو چکا ہے. شاہد عالم بتاتے ہیں کہ انگریزی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ ٹیپو سلطان کے اہل خانہ اس قابل ہوں کہ انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کر سکیں اس لئے ان کے اہل خانہ کو جائیدادیں اور وظائف دیتے تاکہ انہیں بیٹھ کر کھانے کی عادت پڑ جائے اور یہ ناکارہ ہوں جائے ان کو بہت سی سہولیات دی گئی اور وہی ہوا ذیادہ اہل خانہ زندگی بھر زمین جائداد بیچ کھاتے گئے ان میں سے کچھ نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے اپنی اجداد کی دولت کا استعمال کیا پرنس غلام محمد شاہ نے گنوانے کے بجائے اس میں اضافہ کیا اور 1872 میں ٹرسٹ قائم کیا آج ٹالی گنج کلب جو لیز پر ہے اور رائل کلکتہ گلف کلب سے ماہانہ دو سے ڈھائی لاکھ آمدنی ہوتی ہے جو اہل خانہ میں تقسیم ہوتی ہے. پرنس انور علی شاہ روڈ میں ہمارا پرانا آبائی کوٹھی تھی جس کو نواب کوٹھی کہا جتا تھا اس کی جگہ پر اب ایک نئی عمارت میسور فورٹ بن گئ ہے جس کے تین منزلوں میں ٹیپو سلطان کے اہل خانہ رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اور ہمارے خاندان کے کچھ لوگ ہیں جن کی حالت اچھی نہیں ہے لیکن کچھ جنہوں تعلیم حاصل کی اور محنت کرکے ترقی کی ہمارے خاندان میں ابھی کچھ لوگ وکالت کر رہے ہیں تو کچھ بینک میں ہیں اور کچھ بیرون ملک میں کام کرتے ہیں انہوں نے بتایا 4 مئی کو ہمارے گھر میں اور مسجدوں میں دعا جا اہتمام کیا جاتا ہے.
پرنس غلام محمد وقف اسٹیٹ کے ٹرسٹی انور علی شاہ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہا کہ کولکاتا میں ٹیپو سلطان کے خاندان کے لوگ بہت ہیں پرنس غلام محمد کے انتقال کے بعد ہماری حالت بہت خراب ہو گئی تھی ہمارے وقف جائدادوں پر غیر قبضہ ہو گیا تھا بعد میں ہمارے خاندان کچھ لوگوں نے جو تعلیم یافتہ ہوئے انہوں قانونی لڑائی لڑی اور پھر لیز پر دی گئی زمینہسے آمدنی ہونے لگی ہے جیسے پہلے ٹالی گنج کلب والے ماہانہ 602 روپے کرایہ دیتے تھے لیکن عدالت میں معاملہ جانے کے بعد اب ایک لاکھ 30 ہزار ماہانہ ادا کرتے ہیں اس طرح اور بھی جائدادیں ہم نے حاصل کی ہے ابھی اور بھی اس طرح کے معاملات ہیں جن کو سلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے. پرنس کریم شاہ کی بیٹی نشاط شاہ جو وکالت کرتی ہیں انہوں ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ آج جو ھی ہمارے پاس ہیں ہ. لوگوں نے ایک لمبی لڑائی لڑ کر حاصل کیا ہے اور ابھی اس لڑائی کو ہم جاری رکھیں گے.