زردوزی کڑھائی کیے ہوئے کپڑے تو آپ سبھی نے پہنے ہوں گے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ زردوزی اور آری ورک کے گفٹ، شلڈ اور مومینٹو بھی بنائے جاتے ہیں۔ تو چلیے ملتے ہیں احمدآباد کے زردوزی آرٹسٹ شاہد انصاری سے جنہوں نے کپڑوں پر زردوزی کا کام کرکے احمدآباد کی تاریخی وراثت کو زندہ کردیا ہے۔ دراصل بھارت میں زردوزی کڑھائی کے کام کا آغاز 16ویں صدی میں ہوا تھا اور گجرات میں پرشین کمیونٹی نے سورت سے زردوزی کا کام کرنے کی شروعات کی تھی۔
بادشاہوں اور رانیوں کے لباس پر بھی خوبصورت زردوزی اور آری کی کڑھائی بنی رہتی تھی، زردوزی کی کڑھائی والے کپڑے پہننا ہر لڑکی کی پسند رہی ہے۔ اس سے گجرات میں میں زردوزی کی صنعت کی شروعات کی گئی تھی لیکن ٹیکنالوجی کے جدید دور میں کمپیوٹر مشین کے آ جانے سے ہاتھ سے کڑھائی اور زردوزی کا کام بند ہوگیا ہے۔ ایسے میں اس ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے احمدآباد کے شاہد انصاری نے ایک انوکھی پہل کی ہے۔
اس تعلق سے شاہد انصاری نے بتایا کہ 17 سال تک ساڑی، چنیا چولی، ڈیزائنر ڈریسس، پر زردوزی کا کام کیا، لیکن کمپیوٹرائزڈ ایمبائڈری مشین کے آنے کے بعد یہ کام متاثر ہو گیا اور ہزاروں کاریگر بے روزگاری کا شکار ہو گئے اور میں بھی بے روزگار ہو گیا تھا۔'
زردوزی کرنے والے بے روزگار مزدوروں کو کوئی نیا کام تلاش کرنا پڑا۔ شاہد انصاری بھی تین سال تک بے روزگار رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ نیا کرنے کا سوچا، اس لیے سب سے پہلے انہوں نے احمدآباد کا تاریخی کارنج کا چبوترا بنایا، جسے بنانے میں 6 ماہ کا وقت لگا۔ سال 2008 میں شاہد انصاری نے احمدآباد کی تاریخی وراثت کو زردوزی کڑھائی میں ڈھالنے کی پہل کی۔ جس میں انہوں نے بڑے ہی خوبصورت طریقے سے احمدآباد کے تمام 12 دروازے، بھدر قلع، تین دروازہ، سیدی سعید کی جالی والی مسجد بنائی، اس طرح کے 34 مونیومینٹ کا ایک کلیکشن 3 سال میں بن کر تیار ہوا۔
اس تعلق سے شاہد انصاری نے کہا کہ 'میں نے احمدآباد کی 34 تاریخی وراثت کو 3 سال میں زردوزی کڑھائی کرکے بنایا، یہ کام کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جو ہمیں جدوجہد اس کام کی وجہ سے کرنی پڑی وہ آگے نہ کرنی پڑے اور اس ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے میں نے کپڑوں پر تاریخی وراثت بنائی ہیں۔'
واضح رہے کہ شاہد انصاری کے ہاتھ سے بنے ہوئے مومینٹوں اور اعزازی شلڈ احمدآباد سے لے کر اسپین تک گئے ہیں، احمدآباد میونسپل کارپوریشن اور احمدآباد کی بڑی بڑی کمپنیوں نے بھی شاہد انصاری سے مومینٹوں بنوایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بہلول خان غازی مسجد، تغلق زمانے کی فن تعمیرکا حسین شاہکار
اس پر شاہد انصاری نے کہا کہ احمدآباد کی مشہور سیدی سعید کہ جالی والی مسجد میں نے بنائی تھی جسے اسپین میں بھی منگوایا گیا تھا اور میں بھی اسپین گیا تھا بہت سے غیر ملکی سیاح میرے سے اس طرح کے مومینٹوں خرید کر لے جاتے ہیں اور اب کورونا وائرس کے اعزاز کے لیے بھی میں نے مومینٹو بنائی ہے جسے احمدآباد میونسپل کارپوریشن نے بھی لیا ہے۔
بتادیں کہ شاہد انصاری اب ایک زردوزی آرٹسٹ کے نام سے مشہور ہو گئے ہیں، شاہد انصاری کی یہ پہل واقعی قابل تعریف ہے۔