ETV Bharat / bharat

کیا کسان کی ساکھ کبھی بہتر ہوگی؟ - اردو نیوز

ہمارے ملک میں کسانوں کو قدم قدم پر تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فصل پیدا کرنے کے لئے قرضہ حاصل کرنے سے لے کر تیار شدہ فصل کو مناسب قیمت پر بیچنے کی کوشش میں ایک کسان کا دل قدم قدم پر دُکھتا ہے۔

farmer
کسان
author img

By

Published : Apr 4, 2021, 11:00 AM IST

مختلف اضلاع میں انتظامیہ کی بار بار کی گزارشوں کے باوجود بینکوں کی جانب سے کسانوں کو فصل اُگانے کے لئے قرضہ فراہمی کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر تلنگانہ میں ضلع افسران نے بینکوں سے سفارش کی ہے کہ وہ فی ایکڑ زمین پر فصل اُگانے کے لئے ایک کسان کو 57 ہزار روپیہ تک کا قرضہ فراہم کریں۔ لیکن ریاستی سطح کے بینکرس کمیٹی نے فی ایکڑ زمین پر قرضے کی حد محض 38 ہزار روپیہ مقرر کردی ہے۔ آندھرا پردیس میں دھان کی فصل اُگانے کے لئے فی ایکڑ زمین پر قرضے فراہم کرنے کی حد 23 ہزار مقرر کی گئی ہے۔

بینکوں کی جانب سے فصلیں اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضوں کے حوالے سے ہر سال بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس ضمن میں جو اعداد و شمار فراہم کئے جاتے ہیں، وہ دھوکہ دہی پر مبنی ہوتے ہیں۔

جہاں تک فصلیں اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضے کا تعلق ہے، اس حوالے سے آر بی آئی کی گائیڈ لائنز کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فصل اُگانے سے متعلق قرضوں کی فراہمی کے بارے میں قوائد پر خال خال ہی عمل کیا جاتا ہے۔

کسانوں کی اکثریت کو فصل اُگانے کے لئے قرضے حاصل کرنے کے معاملے میں پرائیویٹ قرض دہندگان پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کاپوریٹیو اداروں سے قرضے حاصل کرنے والے دیہی کنبوں کی تعداد 17 فیصد گھٹ گئی ہے۔ کیونکہ یہ کسانوں کے لئے سانپ سیڑھی والا کھیل ثابت ہورہا ہے اور اُنہیں ہر قدم پر خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

ان کسانوں کو کسی بھی سرکاری سکیم سے فائدہ نہیں مل پارہا ہے۔ اس کی مثال تلنگانہ کے مچھریال کے ایک کسان سے ملتی ہے، جس کی تیس ایکڑ زمین پر فصل تباہ ہوجانے کے نتیجے میں اس کو اپنے کنبے سمیت خود کشی کی۔ کیونکہ اُس قرض کی ادائیگی کے لئے اُس کے پاس پیسہ نہیں تھا، جو اس نے بیٹی کی شادی کے لئے حاصل کیا تھا۔

اگر کسانوں کو بر وقت قرض مل پاتا تو وہ بروقت کھیتی باڑی بھی شروع کرسکتے تھے لیکن اُن کی اعتباریت نہ ہونے کی وجہ سے بینکوں نے اُنہیں پرائیویٹ قرض دہندگان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جو اُن سے حد سے زیادہ سود وصول کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

راکیش ٹکیت آبو روڈ پہنچے، آج جائیں گے گجرات

کسانوں کی زندگی بہتر بنانے کےلئے قوائد و ضوابط میں اصلاحات کی شروعات فصل اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضے سے شروع ہونے چاہیں۔ کسانوں کی اعتباریت صرف اُسی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے، جب اُنہیں فصل اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضے کے حوالے سے بینکوں کی پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں گی۔

مختلف اضلاع میں انتظامیہ کی بار بار کی گزارشوں کے باوجود بینکوں کی جانب سے کسانوں کو فصل اُگانے کے لئے قرضہ فراہمی کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر تلنگانہ میں ضلع افسران نے بینکوں سے سفارش کی ہے کہ وہ فی ایکڑ زمین پر فصل اُگانے کے لئے ایک کسان کو 57 ہزار روپیہ تک کا قرضہ فراہم کریں۔ لیکن ریاستی سطح کے بینکرس کمیٹی نے فی ایکڑ زمین پر قرضے کی حد محض 38 ہزار روپیہ مقرر کردی ہے۔ آندھرا پردیس میں دھان کی فصل اُگانے کے لئے فی ایکڑ زمین پر قرضے فراہم کرنے کی حد 23 ہزار مقرر کی گئی ہے۔

بینکوں کی جانب سے فصلیں اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضوں کے حوالے سے ہر سال بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس ضمن میں جو اعداد و شمار فراہم کئے جاتے ہیں، وہ دھوکہ دہی پر مبنی ہوتے ہیں۔

جہاں تک فصلیں اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضے کا تعلق ہے، اس حوالے سے آر بی آئی کی گائیڈ لائنز کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فصل اُگانے سے متعلق قرضوں کی فراہمی کے بارے میں قوائد پر خال خال ہی عمل کیا جاتا ہے۔

کسانوں کی اکثریت کو فصل اُگانے کے لئے قرضے حاصل کرنے کے معاملے میں پرائیویٹ قرض دہندگان پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کاپوریٹیو اداروں سے قرضے حاصل کرنے والے دیہی کنبوں کی تعداد 17 فیصد گھٹ گئی ہے۔ کیونکہ یہ کسانوں کے لئے سانپ سیڑھی والا کھیل ثابت ہورہا ہے اور اُنہیں ہر قدم پر خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

ان کسانوں کو کسی بھی سرکاری سکیم سے فائدہ نہیں مل پارہا ہے۔ اس کی مثال تلنگانہ کے مچھریال کے ایک کسان سے ملتی ہے، جس کی تیس ایکڑ زمین پر فصل تباہ ہوجانے کے نتیجے میں اس کو اپنے کنبے سمیت خود کشی کی۔ کیونکہ اُس قرض کی ادائیگی کے لئے اُس کے پاس پیسہ نہیں تھا، جو اس نے بیٹی کی شادی کے لئے حاصل کیا تھا۔

اگر کسانوں کو بر وقت قرض مل پاتا تو وہ بروقت کھیتی باڑی بھی شروع کرسکتے تھے لیکن اُن کی اعتباریت نہ ہونے کی وجہ سے بینکوں نے اُنہیں پرائیویٹ قرض دہندگان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جو اُن سے حد سے زیادہ سود وصول کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

راکیش ٹکیت آبو روڈ پہنچے، آج جائیں گے گجرات

کسانوں کی زندگی بہتر بنانے کےلئے قوائد و ضوابط میں اصلاحات کی شروعات فصل اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضے سے شروع ہونے چاہیں۔ کسانوں کی اعتباریت صرف اُسی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے، جب اُنہیں فصل اُگانے کے لئے دیئے جانے والے قرضے کے حوالے سے بینکوں کی پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.