ETV Bharat / bharat

Historic Khan Jahan Masjid in Ahmedabad: احمدآباد کی خان جہاں مسجد کیوں ہے خاص؟

احمدآباد شہر ایک تاریخی شہر ہے۔ اس لیے یہ شہر ورلڈ ہیریٹیج سٹی کہلاتا ہے۔ احمدآباد شہر کی روح رواں سابرمتی ندی ہے۔ اسی ندی کے کنارے بے شمار تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک جمال پور علاقے میں موجود خان جہاں مسجد ہے، جسے جونا گڑھ کے راجا راہ مانڈلک نے تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد بہت ہی دلکش اور خوبصورت مسجد ہے۔

Historic Khan Jahan Masjid in Ahmedabad
احمدآباد کی خان جہاں مسجد کیوں ہے خاص؟
author img

By

Published : Dec 18, 2021, 1:51 PM IST

Updated : Dec 18, 2021, 3:43 PM IST

اس تاریخی وراثت کی تاریخ کو عوام تک پہنچانے کے لیے ایسوسی ایشن آف مسلم انٹلیکچول اور احمد شاہ آرمی کی جانب سے سفر وراثت پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔

احمدآباد کی خان جہاں مسجد کیوں ہے خاص؟

اس سفر وراثت کے گائڈ آصف شیخ نے خان جہاں مسجد کے تعلق سے بتایا کہ شوراشٹر کا سب سے بڑا شہر جوناگڑھ تھا اور اس کے راجا راہ مانڈلک تھے۔ اس وقت محمود بیگڑا جو گجرات کی آزاد سلطنت کے حاکم تھے۔ انہوں نے 1467 میں جونا گڑھ پر حملہ کیا اور اسے گجرات سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ اس وقت مانگرول سے ایک شکایت آئی کہ راہ مانڈلک مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں اور وہاں کے لوگوں نے احمد آباد کے شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا۔

شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی گذارش پر محمود بیگڑا نے دوبارہ نہ صرف وہاں حملہ کیا بلکہ شرط رکھی کہ آپ اسلام قبول کر لیں یا پوری زمین کو چھوڑ دیں۔ راہ مانڈلک نے طے کیا کہ وہ اسلام قبول کریں گے اور وہ اگلے سال احمدآباد آئے اور حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے سے اسلام قبول کیا جس کے بعد انہیں خان جہاں کا لقب دیا گیا اور ان ہی کے نام سے احمدآباد کی سابرمتی کے ندی کے کنارے خان جہاں مسجد تعمیر کرائی۔ ان کا مزار احمد آباد کے دوسرے علاقے میں ہے۔ خان جہاں مسجد کے باہر ایک عالیشان دروازہ بھی ہے۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ سنہ 1780 میں جب انگریزوں نے حملہ کیا تھا تو اسی خان جہاں کے دروازے سے انگریز احمدآباد میں داخل ہوئے تھے۔ خان جہاں مسجد محمود بیگڑہ کی آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ احمدآباد کی دوسری شاہی مسجدوں کی طرح یہ مسجد بھی اسی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ بڑے ہی شاندار طریقے سے پلر، گنبد و محراب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ اس مسجد میں بہت زیادہ تعداد میں لوگ آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

دہلی: شیعہ جامع مسجد تاریخی اہمیت کی حامل

وہیں سفر وراثت پروگرام کے آرگنائزر گل معین کھوکھر نے کہا کہ خان جہاں مسجد ایک تاریخی وراثت ہے اور یہ بہت خوبصورت دلکش اور شاندار فن تعمیر کا نمونہ ہے اور اس کے اوپری حصے سے سابرمتی ندی ریور فرنٹ اور احمدآباد کا پرکشش نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کے لئے سفر اس پروگرام کے تحت لوگوں کو اس کی تاریخ سے واقف کرایا گیا اور خاص طور سے راہ مانڈلک کی بنائی گئی خان جہان مسجد تاریخ کا شاہکار مانا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے احاطے میں ایک شاندار مدرسہ بھی ہے جس کا نام جامعہ کنزالعلوم ہے۔ اس مدرسہ کی بنیاد1 نومبر 2004 میں مولانا احمد حسین پٹنی نے رکھی تھی۔ اس تعلق سے اس مدرسہ کے مہتمیم محمد صدیق پٹنی ندوی نے کہا کہ اس مدرسے میں 2004 سے تعلیم و تربیت کا آغاز کیا گیا تھا یہاں ابتدا سے لے کر دور حدیث تک فضیلت تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ فی الحال بڑی تعداد میں یہاں طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مدرسہ خان جہاں مسجد کے احاطے میں ہی تعمیر کیا گیا یہ مسجد وقف بورڈ کے اندر یے لیکن مسجد کی نگرانی مدرسے والے کرتے ہیں۔

خان جہان مسجد شاہی مسجد ہے لیکن آج بھی لوگ اس مسجد کی تاریخ سے ناواقف ہیں ایسے میں انہیں تاریخ سے واقف کرانے کا کام سفر وراثت کے تحت کیا جا رہا ہے۔

اس تاریخی وراثت کی تاریخ کو عوام تک پہنچانے کے لیے ایسوسی ایشن آف مسلم انٹلیکچول اور احمد شاہ آرمی کی جانب سے سفر وراثت پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔

احمدآباد کی خان جہاں مسجد کیوں ہے خاص؟

اس سفر وراثت کے گائڈ آصف شیخ نے خان جہاں مسجد کے تعلق سے بتایا کہ شوراشٹر کا سب سے بڑا شہر جوناگڑھ تھا اور اس کے راجا راہ مانڈلک تھے۔ اس وقت محمود بیگڑا جو گجرات کی آزاد سلطنت کے حاکم تھے۔ انہوں نے 1467 میں جونا گڑھ پر حملہ کیا اور اسے گجرات سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ اس وقت مانگرول سے ایک شکایت آئی کہ راہ مانڈلک مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں اور وہاں کے لوگوں نے احمد آباد کے شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا۔

شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی گذارش پر محمود بیگڑا نے دوبارہ نہ صرف وہاں حملہ کیا بلکہ شرط رکھی کہ آپ اسلام قبول کر لیں یا پوری زمین کو چھوڑ دیں۔ راہ مانڈلک نے طے کیا کہ وہ اسلام قبول کریں گے اور وہ اگلے سال احمدآباد آئے اور حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے سے اسلام قبول کیا جس کے بعد انہیں خان جہاں کا لقب دیا گیا اور ان ہی کے نام سے احمدآباد کی سابرمتی کے ندی کے کنارے خان جہاں مسجد تعمیر کرائی۔ ان کا مزار احمد آباد کے دوسرے علاقے میں ہے۔ خان جہاں مسجد کے باہر ایک عالیشان دروازہ بھی ہے۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ سنہ 1780 میں جب انگریزوں نے حملہ کیا تھا تو اسی خان جہاں کے دروازے سے انگریز احمدآباد میں داخل ہوئے تھے۔ خان جہاں مسجد محمود بیگڑہ کی آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ احمدآباد کی دوسری شاہی مسجدوں کی طرح یہ مسجد بھی اسی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ بڑے ہی شاندار طریقے سے پلر، گنبد و محراب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ اس مسجد میں بہت زیادہ تعداد میں لوگ آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

دہلی: شیعہ جامع مسجد تاریخی اہمیت کی حامل

وہیں سفر وراثت پروگرام کے آرگنائزر گل معین کھوکھر نے کہا کہ خان جہاں مسجد ایک تاریخی وراثت ہے اور یہ بہت خوبصورت دلکش اور شاندار فن تعمیر کا نمونہ ہے اور اس کے اوپری حصے سے سابرمتی ندی ریور فرنٹ اور احمدآباد کا پرکشش نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کے لئے سفر اس پروگرام کے تحت لوگوں کو اس کی تاریخ سے واقف کرایا گیا اور خاص طور سے راہ مانڈلک کی بنائی گئی خان جہان مسجد تاریخ کا شاہکار مانا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے احاطے میں ایک شاندار مدرسہ بھی ہے جس کا نام جامعہ کنزالعلوم ہے۔ اس مدرسہ کی بنیاد1 نومبر 2004 میں مولانا احمد حسین پٹنی نے رکھی تھی۔ اس تعلق سے اس مدرسہ کے مہتمیم محمد صدیق پٹنی ندوی نے کہا کہ اس مدرسے میں 2004 سے تعلیم و تربیت کا آغاز کیا گیا تھا یہاں ابتدا سے لے کر دور حدیث تک فضیلت تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ فی الحال بڑی تعداد میں یہاں طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مدرسہ خان جہاں مسجد کے احاطے میں ہی تعمیر کیا گیا یہ مسجد وقف بورڈ کے اندر یے لیکن مسجد کی نگرانی مدرسے والے کرتے ہیں۔

خان جہان مسجد شاہی مسجد ہے لیکن آج بھی لوگ اس مسجد کی تاریخ سے ناواقف ہیں ایسے میں انہیں تاریخ سے واقف کرانے کا کام سفر وراثت کے تحت کیا جا رہا ہے۔

Last Updated : Dec 18, 2021, 3:43 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.