عظیم مجاہد آزادی بال گنگا دھر تلک کے اس مقبول نعرے 'آزادی میرا پیدائشی حق ہے اور میں اسے لے کر ہی رہوں گا' نے تحریک آزادی میں ایک نئی قوت اور جان بھر دی تھی اور آج بھی یہ نعرہ ہندوستان کی تاریخ سے محبت کرنے والوں کے سینے کو فخر کے احساس سے لبریز کردیتا ہے۔ اپنے وقت کے سب سے عظیم بنیاد پرستوں میں سے ایک بال گنگا دھر تلک انگریزوں سے بھارت کو آزاد کرانے کے لیے مرمٹنے اور کسی بھی حد سے گزر جانے کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ الفاظ کس طرح حکومت کو چیلنج کرنے اور عوام کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے ابتدائی طور پر کیسری اور مراہٹہ اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے مضامین کے ذریعہ انگریزی حکومت کے خلاف اپنی جنگ شروع کردی۔ ان کے مضامین جذبہ حب الوطنی کی شدت و خلوص سے بھرپور تھے اور اسی چیز نے لوگوں کو آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے کی ترغیب دی، جس وجہ سے انگریزوں نے انہیں ' فادر آف انڈین انریسٹ' کا نام دیا۔
انگریزی حکومت کو بال گنگا دھر کے لکھے ہوئے مضامین ناگوار محسوس ہوئے، جس کے بعد انگریز حکومت نے ان پر غداری کا الزام عائدکرتے ہوئے انہیں جیل بھیج دیا۔ لیکن جیل کے باہر موجود ہر بھارتی بال گنگا دھر تلک کو ایک عظیم رہنما کے طور پر دیکھ رہا تھا، جس کی وجہ سے انہیں 'لوک مانیہ' کا لقب ملا۔
مورخ موہن شیٹے بتاتے ہیں کہ 'لوگوں نے تلک کی قیادت کو بڑے پیمانے پر قبول کیا کیونکہ وہ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کی پوری کوشش کر رہے تھے'۔
تلک 23 جولائی 1856 کو مہاراشٹر کے ضلع رتناگیری میں ایک متوسط برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1866 میں تلک اپنے والدین کے ساتھ رتناگیری سے پونے آئے جہاں انہوں نے سنہ 1872 میں اپنی میٹرک کی تعلیم مکمل کی۔اس کے ایک سال قبل سنہ 1871 میں انہوں نے کونکن میں بلال بال خاندان کی ستیہ بھاما بائی سے شادی کی۔
مزید پڑھیں: کماؤں کیسری جس نے پہاڑی لوگوں کو 'قلی بیگار رواج' سے آزادی دلائی
میٹرک کے بعد تلک نے سنہ1876 میں پونے دکن کالج سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔ یہیں ان کی ملاقات گوپال گنیش آگرکر سے ہوئی اور دونوں نے مل کر ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں سنہ 1881 میں تلک اور آگرکر نے انگریزی میں کیسری اور مراٹھی زبان میں مراہٹہ دو اخبارات شروع کیے۔ جہاں ایک طرف آگرکر کیسری کے ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے تھے وہیں تلک نہایت سرگرمی اور جانفشانی کے ساتھ مراہٹہ کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم دونوں میں انگریزوں کے خلاف اپنی لڑائی میں حکمت عملی طئے کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوئے اور دونوں نے اپنے راستے علیحدہ کرلیے۔ جس کے بعد تلک نے دونوں اخبارات کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔
شیٹے بتاتے ہیں کہ "تلک نے 1881 اور 1920 کے درمیان 513 مضامین لکھے۔ کیسری اور مراہٹہ میں ان کے مضامین کو عوام کی جانب سے خوب پذیرائی ملی، لیکن برطانوی حکومت پر تنقید کرنے پر انہیں جیل بھی جانا پڑا ۔ تاہم انہوں نے برطانوی حکومت کے خلاف لکھنا جاری رکھا۔ تلک بخوبی جانتے تھے کہ قلم ہی ان کا اصل ہتھیار ہے اور یہ تلوار سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے اور اسی بات پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے بھارت کے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف اکٹھا کرنے کے لیے کیسری اور مراہٹہ میں اپنے قلم اور الفاظ کی طاقت کا مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔''
سنہ 1905 میں بھارت سے بنگال کی پہلی تقسیم کے بعد ملک میں فسادات نے جنم لیا اور پرتشدد تحریک شروع ہوگئی۔ اسی تحریک کی حمایت میں تلک نے سودیشی، بائیکاٹ، قومی تعلیم اور سوراج کے نعرے لگائے۔ انہوں نے ایک عوامی گنیش اتسو بھی شروع کیا، جس کا مقصد انگریزوں کے خلاف لوگوں کو اکٹھا کرنا تھا۔
تلک کے پوتے روہت تلک نے کہا کہ"لوک مانیہ تلک نے پورے ملک میں سوراج کے مشعل کو روشن کو کیا۔ انہوں نے کیسری کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف مضامین لکھے اور انہیں جیل جانا پڑا۔ تلک نے نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے سوراج کا منتر پھونکا تھا۔
بھارت آزادی کی 75 ویں سالگرہ منارہا ہے۔ ایسے میں ملک کو آزاد کرنے والے تلک جیسے عظیم مجاہدین کی یاد آج بھی بہت سے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ای ٹی وی بھارت اس عظیم مجاہد آزادی کو سلام پیش کرتا ہے جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کردی۔