اترپردیش اسمبلی انتخابات Uttar Pradesh Assembly Election 2022 قریب ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں امیدواروں کی فہرست جاری کر رہی ہیں۔ ریاست میں 20 فیصد آبادی والا مسلم طبقہ ان انتخابات کو کس نظر یہ سے دیکھ رہا ہے؟ ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ پانچ برسوں میں کن مسائل کا سامنا رہا؟ اور کیا مسلمان اپنی قیادت کو مضبوط کر پائیں گے؟ ان تمام سوالوں کا جواب لکھنؤ کے متعدد مسلم دانشوروں سے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
سماجی کارکن و کالم نگار مولانا ذکی نور عظیم ندوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں کہا کہ اترپردیش کا اسمبلی انتخاب مسلمانوں کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا غیروں کے لیے ہے۔ اس انتخاب میں جو مسائل مسلمانوں کے سامنے پیش آئیں گے وہی مسائل گزشتہ پانچ برسوں میں دیگر قوموں کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ لہٰذا تعلیم و ترقی، طبی خدمات، بے روزگاری مہنگائی کو ختم کرنے جیسے مسائل بڑے مسائل کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور انتخابات میں جو ووٹنگ کی امید کی جارہی ہے زیادہ تر سیکولر ووٹر انہیں مدعے پر ووٹ کریں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کے مسائل ریاست کے دیگر قوموں کے مسائل سے مختلف نہیں ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے۔ نہ ہی وہ مسلمانوں کے مسیحا ہیں اور نہ ہی بی جے پی کی بی ٹیم ہیں۔ بلکہ وہ اپنی سیاسی زمین تلاش کر رہے ہیں اس کے لئے مسلمان، کمزور طبقہ کے مسائل وہ پُرزور آواز میں بلند کر رہے ہیں۔
لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں پروفیسر و سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر ایاز اصلاحی بتاتے ہیں کہ اترپردیش میں فرقہ پرستی کی جڑیں بابری مسجد معاملے سے لے کر اب تک کافی مضبوط ہوگئی ہیں لہٰذا ریاست میں جب بھی انتخابات Uttar Pradesh Assembly Election 2022 کی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں تو فرقہ پرست طاقتیں بھی سامنے آتی ہیں اور اس پر ووٹنگ ہوتی ہے لہٰذا جب تک سیکولر جماعتیں متحد ہوکر ان کے خلاف محاذ آرا نہیں ہوں گی اس وقت تک ریاست میں فرقہ پرست طاقتیں ختم نہیں ہوں گی اور اس وقت تک ریاست کی ترقی خوشحالی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔
انہوں کہا کہ ریاست میں جس طرح دلت طبقہ کی رہنما مایاوتی، یادو کے رہنما اکھلیش یادو اسی طرح مسلمان بھی اپنا رہنما و قائد کسی کو بھی منتخب کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مایاوتی صرف دلت ووٹ سے حکومت سازی نہیں کرسکتیں۔ اکھلیش یادو صرف یادو ووٹ سے حکومت نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح مسلم رہنما بھی صرف مسلم ووٹ سے حکومت نہیں بنا سکتا۔ لہٰذا پارٹی سب کی ہونی چاہیے۔ لیکن قیادت مسلم کی ہو۔ اگر ایسا ہو تو اترپردیش کے مسلمانوں کی بڑی کامیابی ہوگی۔
انہوں نے کہا اس کے دو طریقے ہیں۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ اتر پردیش کی چھوٹی مسلم سیاسی جماعتوں کو بڑی سیاسی جماعتوں سے انتخاب سے قبل اتحاد یا انتخابات کے بعد اتحاد کے راستے ہموار کرنا چاہیے تاکہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مطالبات منوا سکیں۔
انتخابات کے بعد کی اتحاد کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جس پارٹی سے آپسی سمجھوتہ ہو اس پارٹی کے خلاف اسمبلی کی نشست پر امیدوار کے اعلان میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے امیدوار کو کتنے ووٹ ملیں گے۔ اگر مسلم سیاسی جماعت کے امیدوار کو کم ووٹ ملتے ہیں اس اسمبلی نشست پر بڑی سیاسی جماعت کی مدد کرنی چاہئے لیکن جہاں پر ان کے امیدوار جیت رہے ہیں وہاں پر زور طاقت کا مظاہرہ کریں۔ ایسا کرنے سے ووٹ تقسیم نہیں ہوگا۔
فرنگی محلی نے اس بات پر زور دیا کہ اسمبلی انتخابات میں کئی مذہبی رہنما اپیل کرتے ہیں کہ مسلم قوم فلاں پارٹی کو ووٹ دے دیں فلاں کو ووٹ دیں ۔یہ بالکل غلط ہے۔ کسی بھی مذہبی رہنما کو ہرگز اختیار نہیں ہے کہ کسی بھی شہری کے آئینی حقوق کے بارے میں وہ اپیل کرے کہ کسی خاص سیاسی مفاد کے پیش نظر کسی پارٹی کو ووٹ کرنے کی اپیل کریں۔
لہٰذا ہر شہری اپنے حقوق، مسائل اور مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے امیدوار کا انتخاب کرے۔