ETV Bharat / bharat

اے ایم یو: "اردو افسانے کے اہم رجحانات" موضوع پر قومی ویبینار کا انعقاد

author img

By

Published : Nov 1, 2021, 11:26 AM IST

Updated : Jul 23, 2022, 4:08 PM IST

سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈی شعبہ اردو علی گڑھ کے زیر اہتمام یک روزہ قومی ویبینار "اردو افسانے کے اہم رجحانات (ابتدا سے 1960 تک)" کا انعقاد کیا گیا۔

اے ایم یو: "اردو افسانے کے اہم رجحانات" موضوع پر قومی ویبینار کا انعقاد
اے ایم یو: "اردو افسانے کے اہم رجحانات" موضوع پر قومی ویبینار کا انعقاد

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈی شعبہ اردو کی جانب سے "اردو افسانے کے اہم رجحانات (ابتدا سے 1960 تک)" کے موضوع پر یک روزہ قومی ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔

اس ویبینار کا آغاذ ڈاکٹر عرفان احمد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت اردو کے مشہور افسانہ نگار اور سابق انکم ٹیکس کمشنر سید محمد اشرف نے کی۔ انہوں نے اس ویبینار پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اردو کے اہم افسانہ نگاروں بالخصوص قرۃ العین حیدر کے حوالے سے گفتگو کی۔

مہمان خصوصی کی حیثیت سے ممتاز افسانہ نگار اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے شرکت کی۔ اس موقع پر پروفیسر طارق چھتاری نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ افسانے میں فی نفسہ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تکنیک کی سطح پر البتہ افسانہ تبدیل ہوا ہے۔

ڈین فیکلٹی آف آرٹس اور سی اے ایس کوآرڈینیٹر پروفیسر سید محمد ہاشم نے استقبالیہ کلمات پیش کئے جن میں انہوں نے ویبینار کے مقالہ نگاروں اور مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ سید محمد اشرف، طارق چھتاری اور ابنِ کنول جیسے عظیم افسانہ نگاروں کی موجودگی ویبینار کی کامیابی کا ضامن ہے۔ پروفیسر سید محمد ہاشم نے یہ بھی کہا کہ افسانہ پرانے ہو جاتے ہیں لیکن نئے نئے انداز میں ان کا مطالعہ جاری رہتا ہے۔

صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ افسانہ دیگر اصناف نثر کے مقابلے زیادہ مقبول صنف ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اردو افسانہ زمانے کی ضرورتوں اور وقت کے تقاضے سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخی حقائق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ راشد الخیری اردو کے اولین افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے پریم چند کو سماجی حقیقت نگاری کا سب سے بڑا علمبردار بتایا اور کہا کہ "انگارے" کی اشاعت سے اردو افسانے کو ایک نیا موڑ ملا ہے۔

اے ایم یو: "اردو افسانے کے اہم رجحانات" موضوع پر قومی ویبینار کا انعقاد

مزید پڑھیں:۔ پریم چند کے افسانے دور حاضر کے مسائل کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں: اردو ادباء

صدر شعبہ اردو نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد افسانہ صرف موضوعات کے تنوع سے ہی آشنا نہیں ہوا بلکہ فکر و فن کی نئی بلندیوں تک بھی پہنچا۔

پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ افسانہ اپنی عمر کے سو سال مکمل کر چکا ہے اور موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے اسے چار چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

۱۔ پہلا دور:۔ پریم چند سے ترقی پسند تحریک کی ابتدا تک۔
۲۔ دوسرا:۔ ترقی پسند تحریک سے ملک کی آزادی تک۔
۳۔ تیسرا:۔ آزادی سے 1960 تک۔
۴۔ چوتھا:۔ 1960 سے تا حال۔

انہوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ شعبہ اردو نے اسی موضوع کے تحت ویبینار کا انعقاد کیا ہے جس میں کم و بیش ادوار پر گفتگو ممکن ہے۔

کنوینر ویبینار ممتاز محقق اور شاعر پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈی شعبہ اردو کی جانب سے "اردو افسانے کے اہم رجحانات (ابتدا سے 1960 تک)" کے موضوع پر یک روزہ قومی ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔

اس ویبینار کا آغاذ ڈاکٹر عرفان احمد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت اردو کے مشہور افسانہ نگار اور سابق انکم ٹیکس کمشنر سید محمد اشرف نے کی۔ انہوں نے اس ویبینار پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اردو کے اہم افسانہ نگاروں بالخصوص قرۃ العین حیدر کے حوالے سے گفتگو کی۔

مہمان خصوصی کی حیثیت سے ممتاز افسانہ نگار اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے شرکت کی۔ اس موقع پر پروفیسر طارق چھتاری نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ افسانے میں فی نفسہ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تکنیک کی سطح پر البتہ افسانہ تبدیل ہوا ہے۔

ڈین فیکلٹی آف آرٹس اور سی اے ایس کوآرڈینیٹر پروفیسر سید محمد ہاشم نے استقبالیہ کلمات پیش کئے جن میں انہوں نے ویبینار کے مقالہ نگاروں اور مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ سید محمد اشرف، طارق چھتاری اور ابنِ کنول جیسے عظیم افسانہ نگاروں کی موجودگی ویبینار کی کامیابی کا ضامن ہے۔ پروفیسر سید محمد ہاشم نے یہ بھی کہا کہ افسانہ پرانے ہو جاتے ہیں لیکن نئے نئے انداز میں ان کا مطالعہ جاری رہتا ہے۔

صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ افسانہ دیگر اصناف نثر کے مقابلے زیادہ مقبول صنف ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اردو افسانہ زمانے کی ضرورتوں اور وقت کے تقاضے سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخی حقائق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ راشد الخیری اردو کے اولین افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے پریم چند کو سماجی حقیقت نگاری کا سب سے بڑا علمبردار بتایا اور کہا کہ "انگارے" کی اشاعت سے اردو افسانے کو ایک نیا موڑ ملا ہے۔

اے ایم یو: "اردو افسانے کے اہم رجحانات" موضوع پر قومی ویبینار کا انعقاد

مزید پڑھیں:۔ پریم چند کے افسانے دور حاضر کے مسائل کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں: اردو ادباء

صدر شعبہ اردو نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد افسانہ صرف موضوعات کے تنوع سے ہی آشنا نہیں ہوا بلکہ فکر و فن کی نئی بلندیوں تک بھی پہنچا۔

پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ افسانہ اپنی عمر کے سو سال مکمل کر چکا ہے اور موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے اسے چار چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

۱۔ پہلا دور:۔ پریم چند سے ترقی پسند تحریک کی ابتدا تک۔
۲۔ دوسرا:۔ ترقی پسند تحریک سے ملک کی آزادی تک۔
۳۔ تیسرا:۔ آزادی سے 1960 تک۔
۴۔ چوتھا:۔ 1960 سے تا حال۔

انہوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ شعبہ اردو نے اسی موضوع کے تحت ویبینار کا انعقاد کیا ہے جس میں کم و بیش ادوار پر گفتگو ممکن ہے۔

کنوینر ویبینار ممتاز محقق اور شاعر پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

Last Updated : Jul 23, 2022, 4:08 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.