سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا پر ایس او ایس کالز (ایمرجنسی پیغامات، مدد کے پیغامات) کرنے والے افراد کے خلاف زبردستی کارروائی کی دھمکی کے معاملے پر حکومت کی شدید سرزنش کی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا 'ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر شہری اپنی پریشانی اور شکایت کو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بتاتے ہیں تو اس کو غلط معلومات نہیں کہا جاسکتا۔'
سپریم کورٹ نے سخت الفاظ میں کہا 'ہم کسی قسم کی معلومات کو روکنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ اگر مدد کی فریاد کرنے والوں کے خلاف کیس درج کیا گیا تو ہم اس کو توہین عدالت مانیں گے۔ تمام ریاستوں اور ریاستوں کے ڈی جی پی کو یہ مضبوط پیغام جانا چاہیے۔'
کورٹ کے یہ ریمارکس اس لیے اہم ہیں کیونکہ یوپی حکومت نے حال ہی میں کہا تھا کہ جو لوگ اور سماجی کارکن سوشل میڈیا پر آکسیجن سپلائی سے متعلق مدد یا تبصرہ کرتے ہیں ان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ورچوئل پریس میٹنگ میں زور دے کر کہا تھا کہ ریاست کے کسی بھی نجی یا سرکاری کووڈ-19 اسپتال میں آکسیجن کی کمی نہیں ہے اور سوشل میڈیا پر "افواہیں" پھیلانے والے لوگوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں یوپی کے امیٹھی پولیس نے ایک لڑکے کے خلاف "غلط معلومات پھیلانے" کے الزام میں آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ملزم نے اپنے دادا کی زندگی کو بچانے کے لیے آکسیجن کی دستیابی کے لیے ٹویٹر پر اپیل جاری کی تھی۔
یہ باتیں انہوں نے تب کہی جب جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ، ایل ناگیشورا راؤ اور ایس رویندر بھٹ پر مشتمل بنچ سپریم کورٹ کی جانب سے کورونا سے متعلق امور (وبائی امور کے دوران ضروری سامان اور خدمات کی تقسیم) سے نمٹنے کے لیے سؤ موٹو کیس کی سماعت کررہی تھی۔