بنگلور: طالبات نے ریاستی و قومی مائنارٹی کمیشن کو بھی رجوع کیا تھا، جس کے نتیجے میں قومی اقلیتی کمیشن سے کالج و ریاستی حکومت کو ایک نوٹس جاری کیا گیا، تاہم اس کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوا۔
حال ہی میں ان طالبات نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک رِٹ-پٹیشن دائر کی، جس کی آج پہلی سنوائی تھی۔
ہائی کورٹ میں اس پٹیشن کی پیروی کر رہے معروف وکیل ایڈووکیٹ محمد طاہر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے حجاب کے مسئلے کے متعلق چند اہم انکشافات کیے۔ Exclusive Conversation with ETV Bharat
طاہر نے بتایا کہ محکمہ پی یو حکومت کرناٹک کے تازہ گائڈلائنز کے مطابق پی یو کالجز میں کوئی یونیفارم نہیں ہے اور اگر کسی کالج کی جانب سے یہ نافذ کیا جاتا ہے تو ان پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
طاہر نے بتایا کہ طالبات کی پٹیشن کا گراؤنڈ محکمہ پی یو کی مذکورہ گائڈلائن رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج پہلی سنوائی میں حجاب کے معاملے پر بحث ہوئی اور کورٹ نے معاملے کو ملتوی کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو اس کا جواب دینے کے لیے وقت دیا اور اسی مہینے کی 10 تاریخ کو معاملے کی سنوائی مقرر کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Another College in Udupi Bans Hijab: اُڈوپی کے ایک اور کالج میں حجاب پر پابندی
ایڈووکیٹ محمد طاہر نے بتایا کہ یہ بھارتی جنتا پارٹی کی فرقہ پرستی کی سیاست ہے، جس کے لئے وہ معصوم طالبات کو بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ ہفتے بتاریخ 8 فروری کو ہائی کورٹ میں اگلی سنوائی ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ اس سلسلے میں خوشگوار فیصلہ ہائی کورٹ سے آئے گا۔ Student's Unique Protest Against ban on Wearing Hijab
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ای ٹی وی بھارت نے منگلورو کے ایم ایل اے یو ٹی قادر سے سوال کیا تھا کہ ان کے ساہلی علاقہ اڈوپی کے کالج میں چل رہے حجاب کے مسئلے میں عوامی نمائندوں کی جانب سے مؤثر مداخلت کیوں نہیں کیا جاسکتا، جس کے جواب میں یو ٹی قادر نے کہا تھا کہ یہ سیاست دانوں کا کام نہیں ہے کہ ایسے معاملات میں دخل اندازی کریں۔ لہذا متاثر لڑکیاں کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔
واضح رہے کہ اڈوپی سرکاری کالج میں حجاب پر پابندی کا یہ مسئلہ اب ریاست کے دوسرے اضلاع میں بھی پھیلایا جارہا ہے، جسے ایڈووکیٹ محمد طاہر نے بی جے پی کی فرقہ پرستی کی سیاست قرار دیا۔
حجاب کے اس معاملے میں کسی بھی مسلم سیکولر سیاسی لیڑران یا ایم ایل ایز یا ایم ایل سیز کی جانب سے عیوانوں میں کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ ایڈووکیٹ طاہر کا کہنا ہے کہ اگر عوامی نمائندوں کی جانب سے اس مسئلے کو شروع ہی میں حکمت کے ساتھ حل کیا جاتا تو آج یہ ریاست بھر میں نہیں پھیلتا۔