ETV Bharat / bharat

UP Election Analytical Report: یوپی میں کس پارٹی سے کس کو کتنا نقصان؟ - اتر پردیش اسمبلی الیکشن رزلٹ کی تجزیاتی رپورٹ

اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ بی جے پی نے ریاست میں ایک بار پھر جیت درج کی۔ بی جے پی نے 255 پر قبضہ کیا، جب کہ سماجوادی پارٹی 111 سیٹوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ UP Election Analytical Report

اتر پردیش انتخابات
اتر پردیش انتخابات
author img

By

Published : Mar 13, 2022, 8:21 PM IST

Updated : Mar 13, 2022, 11:00 PM IST

اتر پردیش انتخابات کے دوران اسدالدین اویسی کی قیادت والی 'اے آئی ایم آئی ایم' پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی 'بی' ٹیم کے طور پر کام کرنے کا مسلسل الزام لگایا گیا۔ ریاست کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد بھی یہ بات مسلسل موضوع بحث ہے کہ کیا بی جے پی کو ایم آئی ایم کی وجہ سے کامیابی ملی؟ اس بات پر غیر جانبدارانہ طریقے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے علاوہ کس پارٹی نے کتنا ووٹ پایا اور اس سے ممکنہ طور پر کس کو نقصان ہوا؟ اسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ سابقہ انتخاب کے مقابلے میں کس پارٹی کا کتنا ووٹ گھٹا اور ممکنہ طور پر وہ کس پارٹی کے حصے میں گیا؟

اس موضوع پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اکثر ساری بحث بی جے پی، سماجوادی پارٹی اور ایم آئی ایم پر سمٹ جاتی ہے جب کہ ان کے علاوہ بھی بہت سی جماعتیں میدان میں تھیں، جن کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوئے۔

ویسے تو بنیادی طور پر کسی فرد یا کمیوٹی کے ووٹ پر کسی بھی پارٹی کی اجارہ داری نہیں ہے، ورنہ ملک کے خزانے سے لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے یہ سارا انتخابی عمل بار بار دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ در اصل یہ پوری بحث ہی نامراد حسرتوں اور اور ناکام امیدوں پر ٹکی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ویسا ہو جاتا اور ویسا نہ ہوتا تو ایسا ہو جاتا۔

بہرحال یہ بات عام طور پر کہی جا رہی ہے کہ اویسی کی پارٹی نے بی جے پی کو الیکشن جیتنے میں مدد کی، لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ایم آئی ایم سے زیادہ ووٹ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو ملے ہیں اور اس پارٹی کو محض ایک سیٹ پر ہی کامیابی ملی۔ اسی کے ساتھ سکے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سابقہ الیکشن کے مقابلے میں بی ایس پی کے ووٹ بڑے پیمانے پر گھٹے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ووٹ کہاں گئے اور بی ایس پی کے سرگرم نہ رہنے سے کس کو فائدہ پہنچا؟

نتائج کے بعد لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسد الدین اویسی کو دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر لینا چاہیے تھا، لیکن کوئی بھی یہ نہیں بول رہا کہ کانگریس نے تنہا الیکشن کیوں لڑا، جب کہ مہینوں کی محنت کے بعد کانگریس کے کھاتے میں محض 2 سیٹیں آئیں اور نہ ہی کسی نے مایاوتی کو ہدف تنقید بنایا، جنہوں نے 12.88 فیصد ووٹ لینے بعد بھی محض ایک ہی سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر اسد الدین اویسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے تو شاید بی جے پی کو اتنی زیادہ سیٹیں نہیں ملتیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ مایاوتی، اکھلیش یادو اور کانگریس کو بھی متحدہ طور پر الیکشن میں اترنا چاہیے تھا یا پھر اویسی کو کسی نے اپنے ساتھ کیوں نہیں لیا؟

ایم آئی ایم کو بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہوئے لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایم آئی ایم کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوئے لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق ایم آئی ایم کو محض 0.49 فیصد ووٹ ملے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر کہ 0.49 فیصد ووٹ سے کوئی کیسے کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے، جب کہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو 12.88 فیصد ووٹ ملے اور اسے محض ایک ہی سیٹ پر کامیابی ملی۔

اگر الیکشن کمیشن کے ڈاٹا کی بات کریں تو الہ آباد (شمال) میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کو جیت ملی انہیں 96 ہزار 39 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والی سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو 41 ہزار 108 ووٹ، تیسرے نمبر پر رہنے والے کانگریس امیدواروں کو 23 ہزار 362 ووٹ اور بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کو 9 ہزار 491 ووٹ ملے، اس کے علاوہ ایم آئی ایم کے امیدواروں کو محض 858 ووٹ ملے۔

بشکریہ: الیکشن کمیشن
بشکریہ: الیکشن کمیشن

اگر الہ آباد سیٹ پر ووٹنگ کا جائزہ لیں تو اگر سماجوادی پارٹی، کانگریس اور بی ایس پی متحد ہو کر الیکشن لڑتے تو شاید بی جے پی کو جیت نہ ملتی جب کہ ایم آئی ایم کا ووٹ اتنا کم ہے کہ اسے بی جے پی کی بی ٹیم کہنا مناسب نہیں ہے۔

اس کے علاوہ خلیل آباد اسمبلی سیٹ پر بی جے پی امیدوار 75 ہزار 833 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو 62 ہزار 703 ووٹ اور تیسرے نمبر پر رہنے والے بہوجن سماج پارٹی امیدوار کو 58 ہزار 36 ووٹ ملے اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کو 25 ہزار 123 ووٹ ملے جب کہ اس سیٹ پر ایم آئی ایم کا امیدوار تھا ہی نہیں تو اس سیٹ پر کس کا قصور مانا جائے کہ اس سیٹ پر بی جے پی نے قبضہ کیا۔

خلیل آباد نشست پر بی جے پی نے 13 ہزار 130 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے تو اب یہ دیکھا جائے کہ کس نے کس کا کاٹا؟ سماجوادی پارٹی نے بی ایس پی کا ووٹ کاٹا، بی ایس پی نے سماجوادی پارٹی کا ووٹ کاٹا یا پھر عام آدمی پارٹی نے ووٹ کاٹنے کا کام کیا۔

چندولی ضلع کے مغل سرائے اسمبلی نشست پر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے قبضہ کیا ہے بی جے پی امیدوار ایک لاکھ ایک ہزار 954 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو 86 ہزار 819 ووٹ تیسرے نمبر پر رہنے والے بی ایس پی امیدوار کو 31 ہزار 490 ووٹ ملے، جب کہ بی جے پی کی بی ٹیم کا الزام جھیلنے والی ایم آئی ایم کو 4 ہزار 669 ووٹ ملے، تو یہاں یہ دیکھنا قابل ذکر ہوگا کہ ایم آئی ایم کے ووٹ سے بی جے پی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اگر ایم آئی ایم کے ووٹ سماجوادی پارٹی کو بھی ملے ہوتے تب بھی سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو جیت نہیں ملتی جب کہ بی ایس پی امیدوار کو ملنے والے ووٹ اتنے ہیں کہ اگر وہ ووٹ سماجوادی پارٹی کو ملے ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا۔

بشکریہ: الیکشن کمیشن
بشکریہ: الیکشن کمیشن

اور بھی بہت سی ایسی نشستیں ہیں جن پر بی جے پی جیت میں ایم آئی ایم کا دور دور تک ہاتھ نظر نہیں آتا لیکن پھر اس پارٹی کو ووٹوں کی تقسیم کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔

اتر پردیش میں بی جے پی نے جن نشستوں پر 200 کے قریب ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے ان کی تعداد 7 ہے جبکہ 500 کے قریب ووٹوں سے 23 سیٹیں، ایک ہزار کے قریب ووٹوں سے 49 سیٹیں، دو ہزار کے قریب ووٹوں سے 86 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

الیکشن کمیشن کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق اتر پردیش میں پارٹی کے لحاظ سے ووٹنگ فیصد دیکھا جائے تو بی جے پی کو 41.29 فیصد ووٹ ملے جب کہ سماجوادی پارٹی کو 32.06 فیصد، بہوجن سماج پارٹی کو 12.88 فیصد اور کانگریس کو 2.33 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

اتر پردیش انتخابات کے دوران اسدالدین اویسی کی قیادت والی 'اے آئی ایم آئی ایم' پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی 'بی' ٹیم کے طور پر کام کرنے کا مسلسل الزام لگایا گیا۔ ریاست کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد بھی یہ بات مسلسل موضوع بحث ہے کہ کیا بی جے پی کو ایم آئی ایم کی وجہ سے کامیابی ملی؟ اس بات پر غیر جانبدارانہ طریقے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے علاوہ کس پارٹی نے کتنا ووٹ پایا اور اس سے ممکنہ طور پر کس کو نقصان ہوا؟ اسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ سابقہ انتخاب کے مقابلے میں کس پارٹی کا کتنا ووٹ گھٹا اور ممکنہ طور پر وہ کس پارٹی کے حصے میں گیا؟

اس موضوع پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اکثر ساری بحث بی جے پی، سماجوادی پارٹی اور ایم آئی ایم پر سمٹ جاتی ہے جب کہ ان کے علاوہ بھی بہت سی جماعتیں میدان میں تھیں، جن کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوئے۔

ویسے تو بنیادی طور پر کسی فرد یا کمیوٹی کے ووٹ پر کسی بھی پارٹی کی اجارہ داری نہیں ہے، ورنہ ملک کے خزانے سے لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے یہ سارا انتخابی عمل بار بار دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ در اصل یہ پوری بحث ہی نامراد حسرتوں اور اور ناکام امیدوں پر ٹکی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ویسا ہو جاتا اور ویسا نہ ہوتا تو ایسا ہو جاتا۔

بہرحال یہ بات عام طور پر کہی جا رہی ہے کہ اویسی کی پارٹی نے بی جے پی کو الیکشن جیتنے میں مدد کی، لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ایم آئی ایم سے زیادہ ووٹ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو ملے ہیں اور اس پارٹی کو محض ایک سیٹ پر ہی کامیابی ملی۔ اسی کے ساتھ سکے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سابقہ الیکشن کے مقابلے میں بی ایس پی کے ووٹ بڑے پیمانے پر گھٹے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ووٹ کہاں گئے اور بی ایس پی کے سرگرم نہ رہنے سے کس کو فائدہ پہنچا؟

نتائج کے بعد لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسد الدین اویسی کو دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر لینا چاہیے تھا، لیکن کوئی بھی یہ نہیں بول رہا کہ کانگریس نے تنہا الیکشن کیوں لڑا، جب کہ مہینوں کی محنت کے بعد کانگریس کے کھاتے میں محض 2 سیٹیں آئیں اور نہ ہی کسی نے مایاوتی کو ہدف تنقید بنایا، جنہوں نے 12.88 فیصد ووٹ لینے بعد بھی محض ایک ہی سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر اسد الدین اویسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے تو شاید بی جے پی کو اتنی زیادہ سیٹیں نہیں ملتیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ مایاوتی، اکھلیش یادو اور کانگریس کو بھی متحدہ طور پر الیکشن میں اترنا چاہیے تھا یا پھر اویسی کو کسی نے اپنے ساتھ کیوں نہیں لیا؟

ایم آئی ایم کو بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہوئے لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایم آئی ایم کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوئے لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق ایم آئی ایم کو محض 0.49 فیصد ووٹ ملے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر کہ 0.49 فیصد ووٹ سے کوئی کیسے کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے، جب کہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو 12.88 فیصد ووٹ ملے اور اسے محض ایک ہی سیٹ پر کامیابی ملی۔

اگر الیکشن کمیشن کے ڈاٹا کی بات کریں تو الہ آباد (شمال) میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کو جیت ملی انہیں 96 ہزار 39 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والی سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو 41 ہزار 108 ووٹ، تیسرے نمبر پر رہنے والے کانگریس امیدواروں کو 23 ہزار 362 ووٹ اور بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کو 9 ہزار 491 ووٹ ملے، اس کے علاوہ ایم آئی ایم کے امیدواروں کو محض 858 ووٹ ملے۔

بشکریہ: الیکشن کمیشن
بشکریہ: الیکشن کمیشن

اگر الہ آباد سیٹ پر ووٹنگ کا جائزہ لیں تو اگر سماجوادی پارٹی، کانگریس اور بی ایس پی متحد ہو کر الیکشن لڑتے تو شاید بی جے پی کو جیت نہ ملتی جب کہ ایم آئی ایم کا ووٹ اتنا کم ہے کہ اسے بی جے پی کی بی ٹیم کہنا مناسب نہیں ہے۔

اس کے علاوہ خلیل آباد اسمبلی سیٹ پر بی جے پی امیدوار 75 ہزار 833 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو 62 ہزار 703 ووٹ اور تیسرے نمبر پر رہنے والے بہوجن سماج پارٹی امیدوار کو 58 ہزار 36 ووٹ ملے اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کو 25 ہزار 123 ووٹ ملے جب کہ اس سیٹ پر ایم آئی ایم کا امیدوار تھا ہی نہیں تو اس سیٹ پر کس کا قصور مانا جائے کہ اس سیٹ پر بی جے پی نے قبضہ کیا۔

خلیل آباد نشست پر بی جے پی نے 13 ہزار 130 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے تو اب یہ دیکھا جائے کہ کس نے کس کا کاٹا؟ سماجوادی پارٹی نے بی ایس پی کا ووٹ کاٹا، بی ایس پی نے سماجوادی پارٹی کا ووٹ کاٹا یا پھر عام آدمی پارٹی نے ووٹ کاٹنے کا کام کیا۔

چندولی ضلع کے مغل سرائے اسمبلی نشست پر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے قبضہ کیا ہے بی جے پی امیدوار ایک لاکھ ایک ہزار 954 ووٹ ملے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو 86 ہزار 819 ووٹ تیسرے نمبر پر رہنے والے بی ایس پی امیدوار کو 31 ہزار 490 ووٹ ملے، جب کہ بی جے پی کی بی ٹیم کا الزام جھیلنے والی ایم آئی ایم کو 4 ہزار 669 ووٹ ملے، تو یہاں یہ دیکھنا قابل ذکر ہوگا کہ ایم آئی ایم کے ووٹ سے بی جے پی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اگر ایم آئی ایم کے ووٹ سماجوادی پارٹی کو بھی ملے ہوتے تب بھی سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو جیت نہیں ملتی جب کہ بی ایس پی امیدوار کو ملنے والے ووٹ اتنے ہیں کہ اگر وہ ووٹ سماجوادی پارٹی کو ملے ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا۔

بشکریہ: الیکشن کمیشن
بشکریہ: الیکشن کمیشن

اور بھی بہت سی ایسی نشستیں ہیں جن پر بی جے پی جیت میں ایم آئی ایم کا دور دور تک ہاتھ نظر نہیں آتا لیکن پھر اس پارٹی کو ووٹوں کی تقسیم کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔

اتر پردیش میں بی جے پی نے جن نشستوں پر 200 کے قریب ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے ان کی تعداد 7 ہے جبکہ 500 کے قریب ووٹوں سے 23 سیٹیں، ایک ہزار کے قریب ووٹوں سے 49 سیٹیں، دو ہزار کے قریب ووٹوں سے 86 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

الیکشن کمیشن کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق اتر پردیش میں پارٹی کے لحاظ سے ووٹنگ فیصد دیکھا جائے تو بی جے پی کو 41.29 فیصد ووٹ ملے جب کہ سماجوادی پارٹی کو 32.06 فیصد، بہوجن سماج پارٹی کو 12.88 فیصد اور کانگریس کو 2.33 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

Last Updated : Mar 13, 2022, 11:00 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.