روسی وزارت خارجہ کے اہلکار ضمیر کابلوف نے میڈیا ایجنسیوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس منصوبہ بند تھا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے روس اور چند دیگر ممالک کو اپنے سیکورٹی مشن کو انجام دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم انہوں نے تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا اور تصدیق کی ہے کہ وہ کابل میں اپنا سفارت خانہ نہیں خالی کریں گے۔
اس اجلاس کو منعقد کرنے کے لیے یورپی ممالک ایسٹونیا اور ناروے نے درخواست دی تھی جو آج بھارتی وقت کے مطابق شام تقریبا 7 بجے سے شروع ہوگا۔
سلامتی کونسل سے منسلک سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتیریس کونسل کے ممبران سے مختصر خطاب کریں گے اور انھیں افغانستان کی صورتحال سے آگاہ کریں گے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ان واقعات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "افغانستان میں جاری نامساعد حالات کے دوران لاکھوں لوگوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے خوف سے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Taliban: 'بیس سال کی جدوجہد اور قربانیوں کا پھل مل گیا'
واضح رہے کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے سوشل میڈیا پر اپنے ملک سے باہر جانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اپنے عہدہ پر برقرار رہتے تو طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 60 لاکھ سے زائد لوگوں کو نقصان پہنچاتے اور خونریزی شروع ہوجاتی اس لیے ملک کو خونریزی سے بچانے کے لیے ملک کو چھوڑنا مناسب سمجھا۔
سابق صدر نے کہا کہ ‘وہ اب ایک نئے تاریخی امتحان کا سامنا کر رہے ہیں، کیا وہ اپنے نام اور افغانستان کی عزت محفوظ کریں گے یا پھر وہ دیگر جگہوں اور نیٹ ورکس کو ترجیح دیں گے’۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ افغانستان کے لوگوں کی حفاظت کریں۔