مفتی محمد ارشد قریشی نے قومی اتحاد کی مثال پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بچیوں کو بھی شادی کا سامان بطور ہدیہ دے رہے ہیں۔
دراصل جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مفتی محمد ارشد قریشی احمدآباد کے تین دروازہ علاقے میں موجود مسجد قریش کے امام بھی ہیں اور گزشتہ 5 سالوں سے وہ لڑکیوں کی شادی میں ضروری سامان دینے کا کام کر رہے ہیں۔
اس تعلق سے مفتی محمد ارشد قریشی نے کہا کہ میں اس دور سے گزر چکا ہوں کہ جب میری پہلی بیٹی کی شادی تھی تب میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر لوگوں کی مدد لے کر بچی کی شادی کی گئی، تو جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور والدین کے ساتھ نہ ہو اس لیے اللہ نے جب مجھے موقع دیا تب سے میں نے لوگوں کی مدد کرنے کا کام شروع کیا۔
میں مسجد کے لوگوں اور نمازیوں سے مدد مانگ کر بچیوں کو ضرورت کا سامان دینے لگا اور جب کبھی غیر مسلم بچیوں کو بھی ضرورت ہوتی ہے تب میں ان کی بھی مدد کرتا ہوں۔ میرا یہ کام لاک ڈاؤن کے بعد سے مسلسل جاری ہے، جس سے والدین کے سر سے بچیوں کو جہیز دینے کا بوجھ بھی اتر جاتا ہے اور ہماری امداد سے بچیاں بھی خوش ہو جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
جمعیت علمائے ہند گجرات نے تری پورہ فساد کی مذمت کی
مفتی محمد ارشد قریشی کے ساتھ مسجد قریش کے بہت سے خادم بھی مل کر امداد کرتے ہیں۔ اس تعلق سے مسجد قریش کے خادم جی پی چاے والا نے کہا کہ لوگوں کو امداد فراہم کرنے کا کام ہم گزشتہ دس برسوں سے کر رہے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے ہم لوگ بچیوں کو کچن سیٹ، تجوری، بیٹ اور ضروری اشیاء ان کی شادیوں میں دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات یا کورونا جیسی وبا کے دور میں بھی لوگوں کو امداد کا سامان مہیا کرا رہے ہیں۔ ہم مہینے میں دس سے بارہ بچیوں کو جہیز دیتے ہیں اور ایک شادی میں 25 سے 30 ہزار کا سامان ہم بطور ہدیہ دیتے ہیں۔
وہیں مفتی محمد ارشد قریشی کے بیٹے سفیان قریشی نے بتایا کہ ہمارے پاس لڑکیوں کے جہیز کے سامان کے لیے زیادہ تر درخواست آتی ہیں۔ اس میں ہم پہلے ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے طور پر جتنا ہو سکے اتنا انتظام کر لیجیے، اس کے بعد جو باقی رہتا ہے سامان اسے ہم اپنی طرف سے دیتے ہیں۔ یہ کام ایمانداری سے کیا جاتا ہے، جس میں کھانے کا سامان، کچن سیٹ، تجوری بیڈ، برتن تاہم کپڑوں کی بھی ہم مدد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
گجرات: اردو کے نامور شاعر شبیر ہاشمی کی خدمات پر ایک نظر
مفتی محمد ارشد قریشی ہر ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں تاکہ لڑکیوں اور ان کے والدین کے اچھے سے شادی کرنے کا ارمان پورا ہو سکے اور انہیں ماں باپ کی دعائیں نصیب ہوں۔
اور ان سے ہمیں جو دعائیں ملتی ہیں اس سے ہم میں اور بھی زیادہ مدد کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔