نئی دہلی: شمال مغربی شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے پیش نظر بھارت نے فضائیہ کے خصوصی طیارے کے ذریعے شام کو 6 ٹن ہنگامی امداد بھیجی ہے۔ یہ کھیپ آج صبح دمشق کے ہوائی اڈے پر شام کے مقامی انتظامیہ اور ماحولیات کے نائب وزیر معتز دوزی کے حوالے کی گئی۔ اس کھیپ میں ہنگامی ادویات اور آلات شامل ہیں جن میں پورٹیبل ای سی جی مشینیں، مریض کے مانیٹر اور دیگر ضروری طبی اشیاء شامل ہیں۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان شام کو طبی سامان اور آلات فراہم کر رہا ہے اور ساتھ ہی آپریشن دوست کے تحت تلاش اور بچاؤ ٹیمیں ترکیہ بھیج رہا ہے۔
بھارت نے منگل کو امدادی سامان اور اہلکاروں کو لے جانے والے پانچ طیارے بشمول این ڈی آر ایف کے اہلکاروں اور ڈاکٹروں کو زلزلہ سے متاثرہ ترکیہ اور شام بھیجا۔ سب سے زیادہ متاثرہ ترکیہ کے لیے بھارت نے امدادی سامان اور ہندوستانی فضائیہ کے چار سی-17 طیارے بھیجے۔ جس میں طبی ماہرین اور 108 ٹن سے زائد وزن کے سازوسامان شامل ہیں۔ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاگ اسکواڈ ملبے اور منہدم ڈھانچے میں متاثرین کی تلاش میں مدد کریں گے۔
فیلڈ آپریٹنگ حالات میں 30 بستروں پر مشتمل طبی سہولت قائم کرنے کے لیے آلات اور 99 اہلکاروں کو روانہ کر دیا گیا ہے۔ اہلکاروں میں مختلف شعبوں کے طبی ماہرین شامل ہیں۔ طبی آلات میں ایکسرے مشینیں، وینٹی لیٹرز، آپریشن تھیٹر، گاڑیاں، ایمبولینس، جنریٹر وغیرہ شامل ہیں۔ شام کے متاثرہ علاقوں میں بھیجے جانے والے سامان میں چھ ٹن سے زیادہ امدادی سامان شامل ہیں جن میں تین ٹرک جنرل اور حفاظتی پوشاک، ہنگامی استعمال کی ادویات، ای سی جی مشینیں، مانیٹر اور دیگر ضروری طبی اشیاء بشمول سرنجیں اور آلات شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Turkey Earthquake ترکی اور شام میں زلزلہ متاثرین کیلئے قطر دس ہزار موبائل گھر بھیجے گا
بھارتی فوج نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ٹیم راحت و طبی امداد فراہم کرنے کے لیے پوری طرح سے لیس ہے۔ ہندوستانی فوج کی انسانی امدادی ٹیم کے ارکان اپنے کام کو انجام دینے اور زلزلے سے متاثرہ ترکی کے لوگوں کی مدد کے لیے پرعزم ہیں۔ ٹیم پوری طرح سے لیس ہے اور راحت اور طبی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔" ترکی اور شام میں پیر کو آنے والے خوفناک زلزلے سے بچ جانے والوں کی تلاش بدھ کو بھی جاری ہے۔ کئی ممالک سے بیرونی امداد خطے میں پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ امدادی تنظیموں اور امدادی کارکنوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ اب بھی بہت سے لوگ ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔