تری پورہ میں مسلمانوں کے خلاف کیے گئے تشدد میں متعدد مساجد، گھروں اور دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا حالانکہ ان سب پر پہلے تو مقامی پولیس افسران نکارتے رہے لیکن بعد میں انہوں نے اقرار کیا کہ تری پورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد ہوا ہے لیکن کارروائی کی بات کی جائے تو ملزمان ابھی تک پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔
البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو لوگ تری پورہ کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کررہے تھے ان میں سے 102 لوگوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ وہیں سپریم کورٹ کے وکلا جو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے لیے تری پورہ گئے تھے ان چاروں وکلاء کو بھی 10 تاریخ تک تری پورہ میں پیش ہونے کے لیے یو اے پی اے کے تحت نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
اس پورے معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ تری پورہ پولیس کو اگر اتنی ہی تشویش ہے کہ کوئی اس بارے میں سوشل میڈیا پر نہیں لکھے تو انہیں چاہیے تھا کہ تری پورہ میں ایسا کچھ ہونے ہی نہیں دیا جائے۔ اگر کسی کے خلاف ظلم ہوا ہے تو میڈیا کے ذریعے وہ منظر عام پر کبھی نہ کبھی تو آئے گا ہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن وکلاء کے خلاف یو اے پی اے کے تحت نوٹس جاری کیا گیا ہے ان لوگوں نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جو جرائم کے زمرے میں آتا ہو۔ یو اے پی اے ایک سنگین جرم ہے جو دہشت گرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ تری پورہ پولیس اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اس قانون کا استعمال کررہی ہے جب کہ اگر تری پورہ پولیس پہلے ہی کارروائی کرلیتی تو شاید آج اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔
واضح رہے کہ تری پورہ میں عبادت گاہوں پر حملے اور تشدد کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئی تھیں جس پر تری پورہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 68 ٹویٹر اکاؤنٹ کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔