ETV Bharat / bharat

Demand for GI Tag for Tilkut انتہائی لذیذ میٹھائی تل کوٹ آج تک سرکاری پہچان کی محتاج

گیا شہر میں تیار ہونے والی تل کوٹ ایک انتہائی لذیذ اور سوندھی خوشبو والی میٹھائی ہے، جس کا ذائقہ ہر عام و خاص پسند کرتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لذیذ اور مقبول میٹھائی کے لیے برسوں کی مانگ اب تک پوری نہیں ہوئی ہے۔ یہاں کے تاجر تل کوٹ کے لئے جی آئی ٹیگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔traders demanded gi tag for tilkut in gaya

تلکوٹ کے لئے جی آئی ٹیگ کا مطالبہ
تلکوٹ کے لئے جی آئی ٹیگ کا مطالبہ
author img

By

Published : Jan 15, 2023, 2:03 PM IST

انتہائی لذیذ میٹھائی تل کوٹ آج تک سرکاری پہچان کی محتاج ہے

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا ہیڈ کوارٹر یعنی کہ 'شہر گیاجی' کی کئی گلیوں میں تلکوٹ کی سوندھی سوندھی خوشبو ان دنوں پھیلی ہوئی ہے۔ رمنا روڈ دھم دھم کی آواز سے گونج رہا ہے۔ مکر سنکرانتی کے استقبال کے لیے یہاں کی دکانوں میں تل کٹ بنائے جا رہے ہیں۔ ضلع میں تلکوٹ بنانے کی تاریخ عہد مغلیہ سے ملتی ہے تاہم تل کوٹ بنانے کا یہ عمل تقریباً 150 سال قبل شہر کے رمنا روڈ میں شروع ہوا تھا۔ آج صرف اس محلہ میں درجنوں دوکانیں واقع ہیں جنکے درمیان تلکوٹ فروخت کرنے کا سخت مقابلہ ہے۔ تقریباً ہزاروں لوگ اس کاروبار سے براہ راست وابستہ ہیں۔ مکرسنکرانتی کے موقع دو تین دوکانوں میں دو سو کوئنٹل تلکوٹ فروخت ہوجاتا ہے۔ موجودہ وقت میں تلکوٹ کا ذائقہ ملک کے مختلف علاقوں و ریاستوں کے علاوہ بیرون ممالک تک پھیل چکا ہے تاہم اتنے وسیع پھیلاو اور مقبولیت کے باوجو 'تلکوٹ' سرکاری سطح پر پہچان کے لیے جدوجہد میں ہے۔

گیا کے تاجر برسوں سے حکومت سے جی آئی ٹیگ کا مطالبہ کررہے ہیں تاہم انکے مطالبے پورے نہیں ہورہے ہیں، البتہ سابق وزیر محکمہ صنعت سید شاہنواز حسین نے جی آئی ٹیگ کی کاروائی کی پہل کی تھی ، انکی پہل پر کاغذی کاروائی تو شروع ہوئی تھی لیکن انجام تک پہنچتی اس سے قبل ہی حکومت بدل گئی۔ جیوگرافیکل انڈیکیشن ٹیگ ایک اسٹیٹس ہے جو کسی خاص علاقے سے تعلق رکھنے والے پروڈکٹ کو دیا جاتا ہے اس مخصوص پروڈکٹ کے معیار، شہرت اور دیگر خصوصیات کو عام طور پر پروڈکٹ کی جغرافیائی اصل سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تلکوٹ ' جی آئی ' کی اہلیت پر کھرا اترتا ہے تاہم حکومتی سطح پر پہچان نہیں ملنے سے تاجروں میں مایوسی ہے۔

مزید پڑھیں:۔ Covid Impact on Tilkut Business: گیا میں کورونا کی وجہ سے تلکُٹ کی سپلائی متاثر

تلکوٹ سنگھ کے رکن ودیا نند گپتا عرف منا کا کہنا ہے کہ تلکوٹ کی ابتدا گیا سے ہی ہوئی ہے یہاں عمدہ کوالٹی اور اچھے کاریگروں کے ذریعے کافی محنتوں کے بعد تلکوٹ تیار ہوتا ہے جبکہ ضلع کے باہر تیار ہونے والے تل کوٹ میں اتنی محنت نہیں کی جاتی ہے ، یہاں مخصوص انداز میں بنائے ہوئے تل کوٹ کافی لزید اور ذائقہدار ہوتے ہیں۔ انہوں مزید کہا کہ ملک و بیرون ملک کی مارکیٹ کے لیے جی آئی ٹیگ لازمی ہے تاہم برسوں کی کوششوں کے بعد بھی یہ ممکن نہیں ہوسکا، اگر جی آئی ٹیگ ہوجائے تو اسکی بڑے پیمانے پر کھپت ہوگی کیونکہ یہ ایک ایسی میٹھائی جو پیکجنگ کے مہینوں بعد بھی خراب نہیں ہوتی ہے اور اس لئے اسکی بیرون ملک میں بھی تجارت ہوسکتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چار ماہ قبل بیرون ملک کے سفارت کاروں کی یہاں آمد ہوئی تھی جن میں ویلجیم ، فنلینڈ ، ازبکستان ، ایسٹونیا ، جنیوا اور دوسرے ملک کے سفیر شامل تھے جو نہ صرف تلکوٹ کے ذائقہ سے لطف اندوز ہوئے بلکہ انہوں نے اس کو بنانے اور اسکی مارکیٹنگ سے بھی واقفیت حاصل کی اور انہوں نے اپنے ملک میں تلکوٹ کی مانگ پر تبادلہ خیال کیا، اگر جی آئی ٹیگ ہوجائے تو آسانی سے بیرون ملک میں تلکوٹ کو فراخت کیا جاسکتا ہے۔
گنیش پرساد نے کہا کہ ان کے آبا و اجداد نے رمنا میں تلکوٹ بنانا شروع کیا تھا۔ پہلے یہاں مٹی کی ہانڈی میں تل کو بھوناجاتا تھا، اسوقت تلکوٹ کا سائز اور وزن زیادہ ہوتا تھا تاہم اس میں تبدیلی آئی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے اس مرتبہ تلکوٹ کی قیمت میں 20, روپیے سے 50 روپیے تک ہوگئی ہے۔ شری گنیش تلکوٹ دوکان پر موجود خریدار محمد شہباز نے بتایاکہ وہ بیس کلومیٹر چلکر یہاں تلکوٹ خریدنے آئے ہیں، یہاں کے تلکوٹ کا ذائقہ کافی منفرد ہوتا ہے۔ برسوں سے یہاں کے تلکوٹ کی مانگ ہے۔ واضح رہے کہ گیا کے تل کوٹ کے خریدار اسکی بہت تعریف کرتے ہیں یہاں انگریزی حکومت کے افسران سے لیکر موجودہ وقت کے افسران اور حکومتوں کے عوامی نمائندے " وزرائے اعلی، صدر جمہوریہ اور وزیراعظم تک نے گیا کے تلکوٹ کا ذائقہ چکھا ہے۔ سردی کے موسم میں تلکوٹ بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے نومبر ماہ سے فروری تک اسکی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔

انتہائی لذیذ میٹھائی تل کوٹ آج تک سرکاری پہچان کی محتاج ہے

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا ہیڈ کوارٹر یعنی کہ 'شہر گیاجی' کی کئی گلیوں میں تلکوٹ کی سوندھی سوندھی خوشبو ان دنوں پھیلی ہوئی ہے۔ رمنا روڈ دھم دھم کی آواز سے گونج رہا ہے۔ مکر سنکرانتی کے استقبال کے لیے یہاں کی دکانوں میں تل کٹ بنائے جا رہے ہیں۔ ضلع میں تلکوٹ بنانے کی تاریخ عہد مغلیہ سے ملتی ہے تاہم تل کوٹ بنانے کا یہ عمل تقریباً 150 سال قبل شہر کے رمنا روڈ میں شروع ہوا تھا۔ آج صرف اس محلہ میں درجنوں دوکانیں واقع ہیں جنکے درمیان تلکوٹ فروخت کرنے کا سخت مقابلہ ہے۔ تقریباً ہزاروں لوگ اس کاروبار سے براہ راست وابستہ ہیں۔ مکرسنکرانتی کے موقع دو تین دوکانوں میں دو سو کوئنٹل تلکوٹ فروخت ہوجاتا ہے۔ موجودہ وقت میں تلکوٹ کا ذائقہ ملک کے مختلف علاقوں و ریاستوں کے علاوہ بیرون ممالک تک پھیل چکا ہے تاہم اتنے وسیع پھیلاو اور مقبولیت کے باوجو 'تلکوٹ' سرکاری سطح پر پہچان کے لیے جدوجہد میں ہے۔

گیا کے تاجر برسوں سے حکومت سے جی آئی ٹیگ کا مطالبہ کررہے ہیں تاہم انکے مطالبے پورے نہیں ہورہے ہیں، البتہ سابق وزیر محکمہ صنعت سید شاہنواز حسین نے جی آئی ٹیگ کی کاروائی کی پہل کی تھی ، انکی پہل پر کاغذی کاروائی تو شروع ہوئی تھی لیکن انجام تک پہنچتی اس سے قبل ہی حکومت بدل گئی۔ جیوگرافیکل انڈیکیشن ٹیگ ایک اسٹیٹس ہے جو کسی خاص علاقے سے تعلق رکھنے والے پروڈکٹ کو دیا جاتا ہے اس مخصوص پروڈکٹ کے معیار، شہرت اور دیگر خصوصیات کو عام طور پر پروڈکٹ کی جغرافیائی اصل سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تلکوٹ ' جی آئی ' کی اہلیت پر کھرا اترتا ہے تاہم حکومتی سطح پر پہچان نہیں ملنے سے تاجروں میں مایوسی ہے۔

مزید پڑھیں:۔ Covid Impact on Tilkut Business: گیا میں کورونا کی وجہ سے تلکُٹ کی سپلائی متاثر

تلکوٹ سنگھ کے رکن ودیا نند گپتا عرف منا کا کہنا ہے کہ تلکوٹ کی ابتدا گیا سے ہی ہوئی ہے یہاں عمدہ کوالٹی اور اچھے کاریگروں کے ذریعے کافی محنتوں کے بعد تلکوٹ تیار ہوتا ہے جبکہ ضلع کے باہر تیار ہونے والے تل کوٹ میں اتنی محنت نہیں کی جاتی ہے ، یہاں مخصوص انداز میں بنائے ہوئے تل کوٹ کافی لزید اور ذائقہدار ہوتے ہیں۔ انہوں مزید کہا کہ ملک و بیرون ملک کی مارکیٹ کے لیے جی آئی ٹیگ لازمی ہے تاہم برسوں کی کوششوں کے بعد بھی یہ ممکن نہیں ہوسکا، اگر جی آئی ٹیگ ہوجائے تو اسکی بڑے پیمانے پر کھپت ہوگی کیونکہ یہ ایک ایسی میٹھائی جو پیکجنگ کے مہینوں بعد بھی خراب نہیں ہوتی ہے اور اس لئے اسکی بیرون ملک میں بھی تجارت ہوسکتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چار ماہ قبل بیرون ملک کے سفارت کاروں کی یہاں آمد ہوئی تھی جن میں ویلجیم ، فنلینڈ ، ازبکستان ، ایسٹونیا ، جنیوا اور دوسرے ملک کے سفیر شامل تھے جو نہ صرف تلکوٹ کے ذائقہ سے لطف اندوز ہوئے بلکہ انہوں نے اس کو بنانے اور اسکی مارکیٹنگ سے بھی واقفیت حاصل کی اور انہوں نے اپنے ملک میں تلکوٹ کی مانگ پر تبادلہ خیال کیا، اگر جی آئی ٹیگ ہوجائے تو آسانی سے بیرون ملک میں تلکوٹ کو فراخت کیا جاسکتا ہے۔
گنیش پرساد نے کہا کہ ان کے آبا و اجداد نے رمنا میں تلکوٹ بنانا شروع کیا تھا۔ پہلے یہاں مٹی کی ہانڈی میں تل کو بھوناجاتا تھا، اسوقت تلکوٹ کا سائز اور وزن زیادہ ہوتا تھا تاہم اس میں تبدیلی آئی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے اس مرتبہ تلکوٹ کی قیمت میں 20, روپیے سے 50 روپیے تک ہوگئی ہے۔ شری گنیش تلکوٹ دوکان پر موجود خریدار محمد شہباز نے بتایاکہ وہ بیس کلومیٹر چلکر یہاں تلکوٹ خریدنے آئے ہیں، یہاں کے تلکوٹ کا ذائقہ کافی منفرد ہوتا ہے۔ برسوں سے یہاں کے تلکوٹ کی مانگ ہے۔ واضح رہے کہ گیا کے تل کوٹ کے خریدار اسکی بہت تعریف کرتے ہیں یہاں انگریزی حکومت کے افسران سے لیکر موجودہ وقت کے افسران اور حکومتوں کے عوامی نمائندے " وزرائے اعلی، صدر جمہوریہ اور وزیراعظم تک نے گیا کے تلکوٹ کا ذائقہ چکھا ہے۔ سردی کے موسم میں تلکوٹ بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے نومبر ماہ سے فروری تک اسکی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.