عرضی میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امدادی کمیٹی کے سکریٹری گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں۔ اس پٹیشن میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ ریاستوں کو حکم جاری کرے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کے گھر یا دکان کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ اترپردیش میں بلڈوزر کی سیاست پہلے سے جاری ہے، لیکن اب یہ مذموم سلسلہ گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھی شروع ہوچکا ہے۔ Arshad Madani on Bulldozer Drive
حال ہی میں رام نومی کے موقع پر مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں جلوس کے دوران انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگاکر پہلے تو فساد برپا کیا گیا اور پھر ریاستی سرکار کے حکم سے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کے 16 گھروں اور 29 دوکانوں کو زمین دوز کردیا گیا، ان میں تو کچھ مکانات ایسے بھی ہیں جنہیں وزیراعظم کی خصوصی اسکیم (پردھان منتری آواس یوجنا)کے توسط سے تعمیر کیا گیا تھا اور ایسے گھروں کو بھی زمین دوز کیا گیا ہے جس کے گھر کے افراد پہلے سے ہی جیلوں میں مقید ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ کس طرح کی غیر قانونیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے عدلیہ کی امور میں دخل اندازی ہورہی ہے۔
ریاستی حکومت کے اس ظالمانہ رویہ کی انصاف پسند حلقوں کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے، وہیں دوسری طرف مدھیہ پردیش سرکاراپنی اس ظالمانہ کارروائی کادفاع کررہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ملک بھرمیں نفرت اورفرقہ پرستی کا جو وحشیانہ کھیل جاری ہے۔ اس پر اپنی گہری تشویش و دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مذہبی شدت پسندی اور منافرت کی ایک سیاہ آندھی پورے ملک میں چلائی جارہی ہے، اقلیتوں اورخاص طورپر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی جگہ جگہ سازشیں ہورہی ہیں۔