کسان مرکز کے نئے زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، کسانوں کے احتجاج کا آج 23 واں دن ہے۔ اب تک کسان اور حکومت کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ حکمت عملی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے سینیئر وکلاء سے ملاقات کریں گے۔
کسان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ مزید حکمت عملی طے کرنے سے قبل 'کولن گونزالفس' 'دشینت دوے اور پرشانت بھوشن جیسے وکلاء سے مشورہ کریں گے۔
خاص بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ متنازع زرعی قوانین پر تعطل ختم کرنے کے لیے زرعی ماہرین اور کسان تنظیموں کا ایک 'منصفانہ اور آزادانہ پینل' قائم کرنا چاہتا ہے۔ احتجاجی کسانوں نے عدم تشدد کیے جانے والے کسانوں کے مظاہرے کرنے کے حق کو قبول کرنے کے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، لیکن انہوں نے اس معاملے کی ٹھوس قرارداد آنے تک احتجاج جاری رکھنے پر زور دیا۔
اس کے ساتھ ہی مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کانگریس سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں پر تینوں نئے زرعی قوانین پر الجھن پھیلانے کا الزام عائد کیا اور مشتعل کسانوں کو اس سفید جھوٹ سے بچنے کا مشورہ دیا اور انہیں یقین دلایا کہ حکومت ان کے تمام خدشات دور کرنے کو تیار ہے۔'
بائیں بازو کی جماعتوں کی نکتہ چینی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی 1962 کی زبان بول رہے ہیں جسے انہوں نے اس وقت چین کے خلاف جنگ کے دوران استعمال کیا تھا۔ کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کے تسلسل اور منڈی کے نظام کو مضبوط بنانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے، تومر نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ سیاسی خود غرضی کے لیے تینوں زرعی قوانین کے خلاف پائے جانے والے الجھن سے بچیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اور کسانوں کے مابین جھوٹ کی دیوار بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔
کسانوں کو لکھے گئے ایک خط میں تومر نے دعوی کیا کہ تینوں زرعی اصلاحات کے قوانین بھارتی زراعت میں ایک نئے باب کی بنیاد بنائیں رکھیں گے جس سے کاشتکار مزید آزاد اور بااختیار ہوں گے، قومی کسان مزدور سبھا کے رہنما ابھمنیو کوہڑ نے کہا کہ ہم 'جمعہ کو سینیئر وکلاء گونزالویز، دشینت دوے، ایچ ایس پھلکا اور پرشانت بھوشن سے ملیں گے اور ان سے مشورہ کرنے کے بعد مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ کسان مورچہ (تقریبا 40 کسان تنظیموں کا متحدہ محاذ) دہلی کے قریب مختلف سرحدوں پر مظاہرہ کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: احتجاج کرنا کسانوں کا جمہوری حق: سپریم کورٹ
کسان رہنما نے کہا 'ہمیں ابھی تک سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا ہے اور ہم عدالتی حکم کی کاپی حاصل کرنے کے بعد ہی اس پر تبصرے کریں گے۔ بھارتیہ کسان یونین کے سینئر رہنما دھرمپال ملک نے کہا کہ تنظیم نے ایک تکنیکی ٹیم تشکیل دی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ مرکز کو پہلے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے کہ آیا وہ متنازعہ زرعی قوانین پر روک لگانا چاہتی ہے یا نہیں، ملک نے کہا 'ہم پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں گے، اپنے وکلا سے مشورہ کریں گے اور پھر آئندہ کی حکمت عملی کا فیصلہ کریں گے۔' واضح ہو کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں از خود اب نوٹس لے رہا ہے۔