ETV Bharat / bharat

An Example Of Communal Harmony In Gaya قبرستان کی زمین ہندو برادری کو راستہ بنانے کے لیے دی گئی

author img

By

Published : Feb 8, 2023, 1:14 PM IST

گیا کے ایک گاؤں کے مسلمانوں نے قبرستان کی زمین سے ہندو برادری کے لیے زمین دی۔ مسلمانوں نے یہ پہل اس لئے کی تاکہ آپس میں کسی طرح کا مذہبی تنازع نہیں ہو۔ یہاں کی ہندوآبادی نے بھی قبرستان کی گھیرا بندی میں تعاون کیا ہے ۔ An example of Hindu-Muslim harmony in Gaya

قبرستان کی زمین ہندو برادری کو راستہ بنانے کے لیے دی گئی
قبرستان کی زمین ہندو برادری کو راستہ بنانے کے لیے دی گئی
قبرستان کی زمین ہندو برادری کو راستہ بنانے کے لیے دی گئی

گیا: ریاست بہار میں قبرستانوں کی اراضی کو لیکر اکثر وپیشتر دوسری آبادی کے ساتھ تنازعات کا معاملہ سرخیوں میں رہتا ہے لیکن ضلع گیا کے بودھ گیا بلاک میں واقع دولرا گاوں کے مسلمانوں نے قبرستان کی زمین کا کچھ حصہ ہندو آبادی کے لیے راستہ وقف کرتے ہوئے آپسی اتحاد کی بہترین مثال پیش کی ہے اور اسکے ساتھ ہی یہاں ہندو مسلم تنازع کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے، گاوں کے مسلمانوں نے دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا صرف دولرا گاوں میں ہندو آبادی کے لیے راستہ وقف کیا بلکہ یہاں جن لوگوں کے مکانات کا کچھ حصہ قبرستان کی اراضی پر واقع تھا اس حصے پر بھی اپنا دعوی رضامندی کے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔

قبرستان کی 40 ڈِسمل زمین گاوں کے راستہ اور تعمیرہ شدہ مکانات کے استعمال کے لیے چھوڑ دی گئی ہے، اسکے لیے باضابطہ کاغذی کاروائی بھی گاوں کے لوگوں نے شروع کردی ہے بقیہ ایک ایکڑ زمین پر قبرستان کی باونڈری کا کام شروع ہوگیا ہے۔ دراصل ضلع ہیڈکوارٹر سے قریب بیس کلو میٹر دوری پر واقع دولرا گاوں ہے اور یہ بودھ گیا بلاک میں واقع ہے۔ گاؤں بودھ گیا اور چیرکی رنگ روڈ پر واقع ہے جہاں سڑک سے متصل ایک قبرستان ہے۔ سرکاری دستاویزات میں قبرستان کی ایک ایکڑ چالیس ڈسمل زمین رجسٹرڈ ہے تاہم جس جگہ پر قبرستان ہے وہاں پر ہندو آبادی کے کچھ مکانات ہیں لیکن ان گھروں تک پہچنے کے لئے راستہ نہیں تھا جسکی وجہ سے لوگوں کو قبرستان سے داخل ہوکر جانا پڑتا ہے، اس سے قبل کہ یہاں کوئی تنازع پیش آتا، مسلمانوں نے پہل کرتے ہوئے ہندو آبادی کو راستے کے لیے زمین دے دی۔

گاؤں کے ایک شخص محمد شمیم نے بتایا کہ دولرا گاوں میں دو سو سے زیادہ مکانات ہیں، یہاں اس گاوں میں مسلمانوں کی آبادی پچیس گھروں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قبرستان آزادی سے قبل کا ہے اور یہاں تین گاوں " دولرا ایلرا اور بجراہا " کے میت کی تدفین ہوتی ہے، چہار دیواری نہیں ہونے کی وجہ سے قبرستان بھی محفوظ نہیں تھا تاہم گاوں کے لوگوں کی پہل پر قبرستان کی چہار دیواری کے لیے ٹینڈر پاس کرایا گیا، جس کے بعد یہاں انتظامیہ کی جانب سے زمین کی پیمائش ہوئی تو ہندو آبادی کے چند مکانات کے کچھ حصے قبرستان کی زمین پر پائے گئے ، اس حوالے سے تینوں گاوں کے مسلمانوں نے میٹنگ کرکے متفقہ فیصلہ کیا کہ انسانیت اور آپسی بھائی چارے کی خاطر جن لوگوں کے مکانات کا حصہ قبرستان کی زمین پر ہے، اس پر اپنا دعوی چھوڑنے کے ساتھ قبرستان کی زمین سے راستےکے لیے چار فٹ کی جگہ وقف کردی جائے تاکہ یہاں لوگوں کو آسانی ہو اور آپسی بھائی چارہ بنا رہے۔

دولرا گاوں میں ہندو طبقہ کے دلت برادری کی آبادی زیادہ ہے ، یہاں گاوں میں پچیس گھر کی آبادی ہی مسلمانوں کی ہے باوجود کہ گاوں کا ماحول خوشگوار ہے، یہاں سبھی آپسی میل محبت کے ساتھ رہتے ہیں ، حالانکہ قبرستان کی زمین کو لیکر ایک دوبار آپسی رنجش بھی ہوئی لیکن گاوں کے بڑے بزرگوں نے معاملے کو بگڑنے نہیں دیا ، دولرا گاوں میں قبرستان کے علاوہ ایک بزرگ کا آستانہ بھی ہے جسکی عمارت کی دیکھ ریکھ سبھی طبقے کے لوگ مل جل کرکرتے ہیں اور اس مزار پر سبھی کا عقیدہ ہے۔

گاؤں کے رہائشی بھولا شاہ نے کہا کہ باونڈری نہیں ہونے کی وجہ سے قبرستان کی بے حرمتی بھی ہوتی تھی لیکن گاوں کے مکھیا دلیپ کمار اور دوسرے ہندو بھائیوں کی مشترکہ پہل سے قبرستان کی گھیرا بندی کا منصوبہ بنایا گیا اور باونڈری کے منصوبے کی تجویز سرکاری سطح سے منظور کرائی گئی، بارہ لاکھ ساٹھ ہزار روپیے کی لاگت سے باونڈری کا کام جاری ہے اور اس کام کے لیے ہندو طبقے کی آبادی بھی پیش پیش ہے۔ اراضی وسیع ہونے کی وجہ سے لاگت کم پڑی تو گاوں کے ہندوں نے بھی مالی طور پر مدد کرنے کی پیش کش کی ہے حالانکہ ابھی کسی سے رقم نہیں لی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہاں سب پیار ومحبت سے رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:۔ Muslim Artisans Made Artificial Temple: مسلم کاریگر بناتے ہیں مصنوعی مندر

گاوں کے شیو کمار نے کہا کہ پہلے قبرستان کی گھیرا بندی نہیں ہونے کی وجہ سے ہندو آبادی کے کچھ مکانات کا حصہ قبرستان کی زمین پر بنالیا گیا تھا، حالانکہ یہ غیر دانستہ طور پر ہوا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی زمین کسی کے لئے نہیں چھوڑتا لیکن مسلمانوں نے یہاں مثال پیش کی اور ان مکانات کے حصے کو بھی چھوڑ دیا اور اضافی طور پر راستے کے لیے بھی جگہ دے دی ہے۔ یہاں کے مسلمان ایک دوسرے کی خوشی وغم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

شیو کمار کا کہنا کہ مذہبی مقامات کے نام پر لڑائی جھگڑا اور فساد کرنے والوں کو انکے گاؤں سے سبق لینا چاہیے کیونکہ جب آپس میں رابطہ اچھا ہوتا ہے تو بڑا سا بڑا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ آپسی محبت کی اس سے اچھی مثال نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ قبرستان کی گھیرا بندی سے اس کا احترام بھی ہوگا کیونکہ جانور بھی اس میں داخل ہوجاتے تھے، اگر قبرستان کی گھیرا بندی کے دوران پیسے کی کمی ہوتی ہے تو ہم گاوں کے لوگ آپس میں چندہ کرکے چہار دیواری کے کام کو مکمل کرائیں گے۔ واضح رہے کہ دولرا گاوں کی قبرستان میں تین گاوں کی میت تدفین ہوتی ہے، یہاں زیادہ تر قبریں زمین میں دھنسی ہوئی ہیں، تین چار قبریں ہی پختہ ہیں۔ قبرستان میں باونڈری کا کام تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ گاوں کے اس آپسی سمجھوتہ اور دریادلی کی سبھی لوگ تعریف کررہے ہیں۔

قبرستان کی زمین ہندو برادری کو راستہ بنانے کے لیے دی گئی

گیا: ریاست بہار میں قبرستانوں کی اراضی کو لیکر اکثر وپیشتر دوسری آبادی کے ساتھ تنازعات کا معاملہ سرخیوں میں رہتا ہے لیکن ضلع گیا کے بودھ گیا بلاک میں واقع دولرا گاوں کے مسلمانوں نے قبرستان کی زمین کا کچھ حصہ ہندو آبادی کے لیے راستہ وقف کرتے ہوئے آپسی اتحاد کی بہترین مثال پیش کی ہے اور اسکے ساتھ ہی یہاں ہندو مسلم تنازع کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے، گاوں کے مسلمانوں نے دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا صرف دولرا گاوں میں ہندو آبادی کے لیے راستہ وقف کیا بلکہ یہاں جن لوگوں کے مکانات کا کچھ حصہ قبرستان کی اراضی پر واقع تھا اس حصے پر بھی اپنا دعوی رضامندی کے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔

قبرستان کی 40 ڈِسمل زمین گاوں کے راستہ اور تعمیرہ شدہ مکانات کے استعمال کے لیے چھوڑ دی گئی ہے، اسکے لیے باضابطہ کاغذی کاروائی بھی گاوں کے لوگوں نے شروع کردی ہے بقیہ ایک ایکڑ زمین پر قبرستان کی باونڈری کا کام شروع ہوگیا ہے۔ دراصل ضلع ہیڈکوارٹر سے قریب بیس کلو میٹر دوری پر واقع دولرا گاوں ہے اور یہ بودھ گیا بلاک میں واقع ہے۔ گاؤں بودھ گیا اور چیرکی رنگ روڈ پر واقع ہے جہاں سڑک سے متصل ایک قبرستان ہے۔ سرکاری دستاویزات میں قبرستان کی ایک ایکڑ چالیس ڈسمل زمین رجسٹرڈ ہے تاہم جس جگہ پر قبرستان ہے وہاں پر ہندو آبادی کے کچھ مکانات ہیں لیکن ان گھروں تک پہچنے کے لئے راستہ نہیں تھا جسکی وجہ سے لوگوں کو قبرستان سے داخل ہوکر جانا پڑتا ہے، اس سے قبل کہ یہاں کوئی تنازع پیش آتا، مسلمانوں نے پہل کرتے ہوئے ہندو آبادی کو راستے کے لیے زمین دے دی۔

گاؤں کے ایک شخص محمد شمیم نے بتایا کہ دولرا گاوں میں دو سو سے زیادہ مکانات ہیں، یہاں اس گاوں میں مسلمانوں کی آبادی پچیس گھروں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قبرستان آزادی سے قبل کا ہے اور یہاں تین گاوں " دولرا ایلرا اور بجراہا " کے میت کی تدفین ہوتی ہے، چہار دیواری نہیں ہونے کی وجہ سے قبرستان بھی محفوظ نہیں تھا تاہم گاوں کے لوگوں کی پہل پر قبرستان کی چہار دیواری کے لیے ٹینڈر پاس کرایا گیا، جس کے بعد یہاں انتظامیہ کی جانب سے زمین کی پیمائش ہوئی تو ہندو آبادی کے چند مکانات کے کچھ حصے قبرستان کی زمین پر پائے گئے ، اس حوالے سے تینوں گاوں کے مسلمانوں نے میٹنگ کرکے متفقہ فیصلہ کیا کہ انسانیت اور آپسی بھائی چارے کی خاطر جن لوگوں کے مکانات کا حصہ قبرستان کی زمین پر ہے، اس پر اپنا دعوی چھوڑنے کے ساتھ قبرستان کی زمین سے راستےکے لیے چار فٹ کی جگہ وقف کردی جائے تاکہ یہاں لوگوں کو آسانی ہو اور آپسی بھائی چارہ بنا رہے۔

دولرا گاوں میں ہندو طبقہ کے دلت برادری کی آبادی زیادہ ہے ، یہاں گاوں میں پچیس گھر کی آبادی ہی مسلمانوں کی ہے باوجود کہ گاوں کا ماحول خوشگوار ہے، یہاں سبھی آپسی میل محبت کے ساتھ رہتے ہیں ، حالانکہ قبرستان کی زمین کو لیکر ایک دوبار آپسی رنجش بھی ہوئی لیکن گاوں کے بڑے بزرگوں نے معاملے کو بگڑنے نہیں دیا ، دولرا گاوں میں قبرستان کے علاوہ ایک بزرگ کا آستانہ بھی ہے جسکی عمارت کی دیکھ ریکھ سبھی طبقے کے لوگ مل جل کرکرتے ہیں اور اس مزار پر سبھی کا عقیدہ ہے۔

گاؤں کے رہائشی بھولا شاہ نے کہا کہ باونڈری نہیں ہونے کی وجہ سے قبرستان کی بے حرمتی بھی ہوتی تھی لیکن گاوں کے مکھیا دلیپ کمار اور دوسرے ہندو بھائیوں کی مشترکہ پہل سے قبرستان کی گھیرا بندی کا منصوبہ بنایا گیا اور باونڈری کے منصوبے کی تجویز سرکاری سطح سے منظور کرائی گئی، بارہ لاکھ ساٹھ ہزار روپیے کی لاگت سے باونڈری کا کام جاری ہے اور اس کام کے لیے ہندو طبقے کی آبادی بھی پیش پیش ہے۔ اراضی وسیع ہونے کی وجہ سے لاگت کم پڑی تو گاوں کے ہندوں نے بھی مالی طور پر مدد کرنے کی پیش کش کی ہے حالانکہ ابھی کسی سے رقم نہیں لی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہاں سب پیار ومحبت سے رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:۔ Muslim Artisans Made Artificial Temple: مسلم کاریگر بناتے ہیں مصنوعی مندر

گاوں کے شیو کمار نے کہا کہ پہلے قبرستان کی گھیرا بندی نہیں ہونے کی وجہ سے ہندو آبادی کے کچھ مکانات کا حصہ قبرستان کی زمین پر بنالیا گیا تھا، حالانکہ یہ غیر دانستہ طور پر ہوا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی زمین کسی کے لئے نہیں چھوڑتا لیکن مسلمانوں نے یہاں مثال پیش کی اور ان مکانات کے حصے کو بھی چھوڑ دیا اور اضافی طور پر راستے کے لیے بھی جگہ دے دی ہے۔ یہاں کے مسلمان ایک دوسرے کی خوشی وغم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

شیو کمار کا کہنا کہ مذہبی مقامات کے نام پر لڑائی جھگڑا اور فساد کرنے والوں کو انکے گاؤں سے سبق لینا چاہیے کیونکہ جب آپس میں رابطہ اچھا ہوتا ہے تو بڑا سا بڑا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ آپسی محبت کی اس سے اچھی مثال نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ قبرستان کی گھیرا بندی سے اس کا احترام بھی ہوگا کیونکہ جانور بھی اس میں داخل ہوجاتے تھے، اگر قبرستان کی گھیرا بندی کے دوران پیسے کی کمی ہوتی ہے تو ہم گاوں کے لوگ آپس میں چندہ کرکے چہار دیواری کے کام کو مکمل کرائیں گے۔ واضح رہے کہ دولرا گاوں کی قبرستان میں تین گاوں کی میت تدفین ہوتی ہے، یہاں زیادہ تر قبریں زمین میں دھنسی ہوئی ہیں، تین چار قبریں ہی پختہ ہیں۔ قبرستان میں باونڈری کا کام تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ گاوں کے اس آپسی سمجھوتہ اور دریادلی کی سبھی لوگ تعریف کررہے ہیں۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.