رانچی: جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کی مسلم لڑکی اپنے سرپرستوں کی مداخلت کے بغیر اپنی پسند کے مرد سے شادی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے اور 15 سالہ لڑکی سے شادی کرنے والے نوجوان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا۔ جمشید پور کے جگسلائی کی رہنے والی ایک 15 سالہ لڑکی کو ورغلا کر شادی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسکے والد نے بہار کے نوادہ کے رہنے والے 24 سالہ نوجوان محمد سونو کے خلاف دفعہ 366A اور 120B کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ اس ایف آئی آر پر فوجداری کارروائی کو چیلنج کرتے ہوئے محمد سونو نے جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں کوشنگ پٹیشن دائر کی تھی۔The Jharkhand High Court ordered criminal proceedings against the youth who married a Muslim minor girl
مزید پڑھیں:۔ SC Notice on Islamic Marriage مسلم نابالغ لڑکی کی شادی کے معاملے میں نوٹس جاری
تاہم درخواست کی سماعت کے دوران لڑکی کے والد نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کی بیٹی کو اللہ کے فضل سے ایک اچھا ساتھی ملا ہے۔ انہوں نے غلط فہمی کی وجہ سے سونو کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ سماعت کے دوران لڑکی کے وکیل نے بھی عدالت کو بتایا کہ دونوں خاندانوں نے یہ شادی قبول کر لی ہے۔ تمام فریقین کو سننے کے بعد جسٹس ایس کے دویدی کی سنگل بنچ نے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے اور نوجوان کے خلاف درج فوجداری کارروائی کا حکم دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ مسلم لڑکی کی شادی مسلم پرسنل لا کے تحت ہوتی ہے۔ لڑکی کی عمر تقریباً 15 سال ہے اور وہ اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے میں آزاد ہے۔