ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے فارہ ندیم نے کہا کہ کم عمری ہی سے مجھے لکھنے پڑھنے کا کا شوق تھا جو بھی آئیڈیا ذہن میں آتا تھا میں اسے لکھ لیا کرتی تھی۔
ابتدائی دنوں میں انگریزی زبان میں شعر لکھنے کا جذبہ میرے اندر اس طور پر بیدار ہوا کہ جب بھی ایک دو لائن شعر میرے ذہن میں آتی تو میں اسے لکھ کر اپنے والدین و اسکول کے اساتذہ کو دکھاتی تو میری کافی حوصلہ افزائی ہوتی اس طرح یوں لکھتے لکھتے شعر لکھنے کا میرا سفر شروع ہوا اور اب تک ایک شعری مجموعہ اسٹریڈنگ ہارٹ بیٹ (striding heart beats)منظر عام پر آچکا ہے جب کہ فنٹاسی چیز( fantasy chase)میں چار نظم اور' سیکریٹ آف مائی ہیپینیس ' (secret of my happiness)میں ایک کہانی اور ریزننس میں 2 نظم شائع ہوچکی ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ فارہ ندیم کے دادا معراج فیض آبادی اردو کے ایک معروف شاعر گزرے ہیں اس تعلق سے فارہ بتاتی ہیں کہ میرے دادا کا یہ شعر مجھے ہمیشہ ہمت و حوصلہ دیتا ہے۔
'مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ، میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے'
یہ شعر زبان زد عوام وخواص ہوا۔ انہوں نے بھی شاعری کی ابتداء انگزیزی زبان سے کی تھی۔ بعد میں اردو زبان کے مقبول شاعروں کی صف میں شامل ہوئے اور خوب پذیرائی ہوئی۔ فارہ ندیم نے بتایا کہ میں نے مختلف موضوعات پر شعر لکھے ہیں۔ زیادہ تر موٹیویشنل اشعار ہیں کیونکہ موجودہ دور میں جس طریقے سے کورونا اور لاک ڈاؤن نے لوگوں کے ذہن و دماغ پر غلط اثرات مرتب کئے ہیں ایسے میں لوگوں کو جذباتی طور پر حوصلہ دینا اور کسی کام کی جانب راغب کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر بھی میرے کافی اشعار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرائمی افسانہ لکھنے میں بھی مجھے کافی دلچسپی ہے اور اس حوالے سے اپنا بلاگ بنایا ہے اور مسلسل اس پر جرائمی افسانہ لکھ رہی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:ایک شاعر: ڈاکٹر شگفتہ غزل ایک ممتاز شاعرہ
مولانا سلمان ندوی سے یوپی اسمبلی انتخابات سے متعلق خاص بات چیت
ایک شاعر: لکھنؤ کی کم عمر انگریزی شاعرہ فارہ ندیم سے خصوصی گفتگو
اردو شاعری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میرے دادا کی شاعری کی ابتداء چونکہ انگریزی سے ہوئی تھی لہٰذا ممکن ہے کہ میں بھی انگریزی کے بعد اردو شاعری شروع کردوں۔ انہوں نے اپنے والدین، اساتذہ اعزاء و اقرباء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کام میں ان سبھی نے میری کافی مدد کی ہے اور انہی لوگوں کی محنت و کاوش سے متاثر ہوکر میں نے اپنی دلچسپی کے میدان میں غور و فکر کرنا شروع کیا اور مجھے یہ کامیابی ملی۔