افغانستان کی نئی طالبان حکومت کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ وہ کئی روز سے جاری مظاہروں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی کے تحت عبوری حکومت نے اب کسی بھی احتجاج کے لیے پیشگی اجازت لینا اور کم از کم 24 گھنٹے پہلے احتجاج کی تفصیلات حکومت کے سامنے پیش کرنا لازمی قرار دیا ہے۔
وزیر نے ملک میں تمام احتجاج ختم کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور کہا کہ مظاہرین کو پیشگی اجازت لینا لازمی ہے، جس میں نعروں اور بینرز کی منظوری بھی شامل ہے۔
وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'تمام شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ موجودہ وقت میں کسی بھی طریقہ یا کسی بھی قسم کا مظاہرہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اس بات کا امکان ہے کہ وہ خواتین جو ملک کے سخت گیر حکمرانوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے روزانہ احتجاج کی قیادت کر رہی ہیں، انہیں نئے قوانین کے تحت احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
طالبان نے کہا ہے کہ اجازت حاصل ہونے کے بعد ہی احتجاج کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کابل میں انتشار پھیلانے سے گریز کیا جائے۔
واضح رہے افغانستان میں متعدد تنظیمیں اور خواتین اپنے حقوق کو لیکر احتجاج کر رہی ہیں۔ مظاہرین کو خدشہ ہے کہ طالبان کی سخت گیر حکومت خواتین کے حقوق کو سلب کرے گی۔ اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ امتیازی سکوک نہیں کرے گے لیکن عالمی سطح پر ان کے الفاظ پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خدشہ ہے کہ جس طرح طالبان کی پہلی حکومت (1996) نے خواتین کے خلاف روایہ اختیار کیا تھا کہیں پھر سے ویسا ہی نہ ہو۔
عالمی برادری کا کہنا ہے کہ طالبان کو ان کے عمل سے جانا جائے گا نہ کہ ان کے بیانات سے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو عالمی سطح پر تسلیم ہونے کے لیے حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی۔