ETV Bharat / bharat

علی گڑھ: اردو ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے "سر سید نمبر" کا اجرا

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی علوم کے کانفرنس ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں معروف اردو ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے خصوصی "سر سید نمبر" جاری کیا۔

author img

By

Published : Oct 12, 2019, 1:24 PM IST

Updated : Jul 23, 2022, 4:20 PM IST

"سر سید نمبر" کا اجرا کیا۔

جریدے کے خصوصی شمارے میں اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان کی 202 ویں یوم پیدائش منائی گئی ہے۔

پروفیسر طارق منصور نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ' تہذیب الاخلاق علی گڑھ موومنٹ سے وابستہ ہیں اور فکر و نظر سہ ماہی بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، لہذا تحقیقی اسکالرز اور طلباء کو جریدہ کو سبسکرائب کرنے کے لیے ترغیب دینی چاہئے اور اسے باقاعدگی سے پڑھنا چاہئے'۔

پروفیسر منصور نے کہا کہ ' تاریخ کے علم کو تاریخ اور واقعات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ سرسید ایک تاریخ دان، ماہر آثار قدیمہ، ایک ماہر تعلیم تھے اور ان کے زمانے کے تناظر میں ان کے فلسفے، وژن اور حکمت عملی کا جائزہ لیا جانا چاہئے جب وہاں زبردست سماجی و سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا '۔

"سر سید نمبر" کا اجرا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ' بھارت میں نوآبادیاتی حکمرانی اپنی پُرعزم یقین اور دور اندیشی کے ساتھجاری تھی، اس دور میں سرسید نے سماجی و تعلیمی اصلاحات کے مشن کا آغاز کیا۔ اس کو آج کے پیرامیٹرز پر سیاق و سباق سے بالاتر ہو کر انصاف کرنا ہوگا'۔

وائس چانسلر نے تہذیب الاخلاق کے آئندہ امور میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

پروفیسر اے آر کدوائی (ڈائریکٹر، کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی علوم) نے کہا کہ' تہذیب الاخلاق کا خصوصی شمارہ سرسید علوم کے اسکالرز کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں اہم مضامین ہیں جن میں سرسید کی نئی جہتوں اور ان کے کام پر روشنی ڈالی گئی ہے'۔

انہوں نے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ دیوبندی علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ سرسید کا مخالف تھا، جو کہ جھوٹ ہے'۔

انہوں نے مزید خصوصی مضمون میں شامل مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'سرسید نے اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں ایک مضمون لکھا، جو آج کی لبرل جمہوریت میں ایک بڑی ضرورت ہے' ۔

پروفیسر ازرمی دخت صفوی (مشیر، انسٹی ٹیوٹ آف فارسی ریسرچ) نے کہا کہ' سرسید تاریخ کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ سرسید کی تحریک کثیر جہتی تھی، انہوں نے اخلاقی اصلاح، کردار، طرز عمل اور اخلاقیات کے امور کی ایک لمحے پر تحریر کیا، یہاں تک کہ اعدادیاتی سائنس پر بھی لکھا اور جدید نظام تعلیم کے قیام پر بھی توجہ دی۔

"سر سید نمبر" کا اجرا کیا۔

پروفیسر صفوی نے اس مشن کی تعریف کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور سرسید کا وژن اور اس کو اپنانے کی اپیل کی۔

وائس چانسلر اور دیگر مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے،‌ پروفیسر ابو سفیان اصلاحی (ایڈیٹر ، تہذیب الاخلاق) نے کہا کہ 'خصوصی شمارے میں 41 مضامین ہیں جن کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خان کی لکھی ہوئی ایک دو کتابوں کے مضامین جن کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے، کو خصوصی شمارے میں شامل کیا گیا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ سرسید اور تاریخ، خواتین کی تعلیم، قرآنی و اسلامی علوم، بچوں کا ادب، اکیسویں صدی میں سرسید کی مطابقت، تصور جہاد، علی گڑھ تحریک، سر سید اور اخلاقی اصلاح، سرسید کے تعلیمی نظریات جیسے عنوانات اس میں شامل ہے'۔

اس کے علاوہ سرسید اور اردو زبان و ادب میں اصلاحات وغیرہ خصوصی شمارے میں شامل ہیں۔

جلال الدین نے شکریہ ادا کیا۔ پروگرام میں متعدد فیکلٹی ممبران، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

جریدے کے خصوصی شمارے میں اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان کی 202 ویں یوم پیدائش منائی گئی ہے۔

پروفیسر طارق منصور نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ' تہذیب الاخلاق علی گڑھ موومنٹ سے وابستہ ہیں اور فکر و نظر سہ ماہی بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، لہذا تحقیقی اسکالرز اور طلباء کو جریدہ کو سبسکرائب کرنے کے لیے ترغیب دینی چاہئے اور اسے باقاعدگی سے پڑھنا چاہئے'۔

پروفیسر منصور نے کہا کہ ' تاریخ کے علم کو تاریخ اور واقعات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ سرسید ایک تاریخ دان، ماہر آثار قدیمہ، ایک ماہر تعلیم تھے اور ان کے زمانے کے تناظر میں ان کے فلسفے، وژن اور حکمت عملی کا جائزہ لیا جانا چاہئے جب وہاں زبردست سماجی و سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا '۔

"سر سید نمبر" کا اجرا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ' بھارت میں نوآبادیاتی حکمرانی اپنی پُرعزم یقین اور دور اندیشی کے ساتھجاری تھی، اس دور میں سرسید نے سماجی و تعلیمی اصلاحات کے مشن کا آغاز کیا۔ اس کو آج کے پیرامیٹرز پر سیاق و سباق سے بالاتر ہو کر انصاف کرنا ہوگا'۔

وائس چانسلر نے تہذیب الاخلاق کے آئندہ امور میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

پروفیسر اے آر کدوائی (ڈائریکٹر، کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی علوم) نے کہا کہ' تہذیب الاخلاق کا خصوصی شمارہ سرسید علوم کے اسکالرز کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں اہم مضامین ہیں جن میں سرسید کی نئی جہتوں اور ان کے کام پر روشنی ڈالی گئی ہے'۔

انہوں نے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ دیوبندی علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ سرسید کا مخالف تھا، جو کہ جھوٹ ہے'۔

انہوں نے مزید خصوصی مضمون میں شامل مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'سرسید نے اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں ایک مضمون لکھا، جو آج کی لبرل جمہوریت میں ایک بڑی ضرورت ہے' ۔

پروفیسر ازرمی دخت صفوی (مشیر، انسٹی ٹیوٹ آف فارسی ریسرچ) نے کہا کہ' سرسید تاریخ کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ سرسید کی تحریک کثیر جہتی تھی، انہوں نے اخلاقی اصلاح، کردار، طرز عمل اور اخلاقیات کے امور کی ایک لمحے پر تحریر کیا، یہاں تک کہ اعدادیاتی سائنس پر بھی لکھا اور جدید نظام تعلیم کے قیام پر بھی توجہ دی۔

"سر سید نمبر" کا اجرا کیا۔

پروفیسر صفوی نے اس مشن کی تعریف کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور سرسید کا وژن اور اس کو اپنانے کی اپیل کی۔

وائس چانسلر اور دیگر مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے،‌ پروفیسر ابو سفیان اصلاحی (ایڈیٹر ، تہذیب الاخلاق) نے کہا کہ 'خصوصی شمارے میں 41 مضامین ہیں جن کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خان کی لکھی ہوئی ایک دو کتابوں کے مضامین جن کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے، کو خصوصی شمارے میں شامل کیا گیا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ سرسید اور تاریخ، خواتین کی تعلیم، قرآنی و اسلامی علوم، بچوں کا ادب، اکیسویں صدی میں سرسید کی مطابقت، تصور جہاد، علی گڑھ تحریک، سر سید اور اخلاقی اصلاح، سرسید کے تعلیمی نظریات جیسے عنوانات اس میں شامل ہے'۔

اس کے علاوہ سرسید اور اردو زبان و ادب میں اصلاحات وغیرہ خصوصی شمارے میں شامل ہیں۔

جلال الدین نے شکریہ ادا کیا۔ پروگرام میں متعدد فیکلٹی ممبران، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

Last Updated : Jul 23, 2022, 4:20 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.