ETV Bharat / bharat

کسان تحریک: کیا احتجاج واقعی ایک بنیادی حق ہے: سپریم کورٹ - ای ٹی وی بھارت اردو

عدالت عظمیٰ نے راجستھان کے کسانوں کی تنظیم 'کسان مہا پنچایت' کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنے کے بنیادی حقوق کے معاملے پر بنچ غور کرے گا۔ اس موضوع سے متعلق دیگر زیر التوا معاملات کو عدالت عظمیٰ میں منتقل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
author img

By

Published : Oct 4, 2021, 7:32 PM IST

سپریم کورٹ نے جنتر منتر پر ستیہ گرہ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پیر کو کہا کہ عدالت اس بات پر غور کرے گی کہ کیا احتجاج کرنے کا حق ہے درحقیقت ایک بنیادی حق ہے۔

جسٹس اے ایم کھانولکر کی سربراہی میں بنچ نے راجستھان کے کسانوں کی تنظیم 'کسان مہا پنچایت' کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لکھیم پور کھیری تشدد میں کئی کسانوں اور دیگر کی ہلاکت کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے اس طرح کے پر تشدد تحریکوں پر سوال کرتے ہوئے سخت تنقیدیں کی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ احتجاج کرنے کے بنیادی حقوق کے معاملے پر ایک بڑا بنچ غور کرے گا۔ اس موضوع سے متعلق دیگر زیر التوا معاملات کو عدالت عظمیٰ میں منتقل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے پوچھا کہ نئے زرعی قوانین پر مرکز کی پابندی کے بعد بھی سڑکوں پر احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے؟ عدالت نے زرعی قوانین کو روک دیا ہے اور ایگزیکٹو نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود ہر روز سڑکوں پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں ، لیکن پرتشدد واقعات کی صورت میں کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔

عدالت نے کہا کہ زرعی قوانین کی صداقت کا فیصلہ عدالت کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا اور صرف عدالت اس سے متعلقہ تمام ضروری سماعت کر رہی ہے۔

ایڈوکیٹ اجے چودھری ، جو کہ مہا پنچایت کی طرف سے پیش ہوئے نے، کہا کہ مظاہرے ، مذاکرات اور مباحثہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔

درخواست گزار کسان مہا پنچایت کے وکیل نے کہا کہ کسان احتجاجی مقام کے اطراف اور سڑکوں پر ٹریفک کو روکنے میں شامل نہیں تھے۔ پولیس سڑکوں کو جام کرتی ہے۔ اس سے قبل کی سماعت میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے حکم پر پولیس سڑکیں بند کرتی ہیں ۔

مزید پڑھیں:لکھیم پور تشدد: متاثرین کے اہلِ خانہ کو معاوضہ اور سرکاری نوکری کا اعلان

کسان مہا پنچایت کو ستیہ گرہ کے لیے جنتر منتر پر اجازت دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ اب اگلی سماعت 21 اکتوبر کو کرے گی۔

واضح رہے کہ مہا پنچایت نے اپنی درخواست میں نئی دہلی کے جنتر منتر علاقے میں 200 کسانوں کے ساتھ پرامن ستیہ گرہ کی اجازت مانگی ہے، اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا کہ حکومت اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔

یو این آئی

سپریم کورٹ نے جنتر منتر پر ستیہ گرہ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پیر کو کہا کہ عدالت اس بات پر غور کرے گی کہ کیا احتجاج کرنے کا حق ہے درحقیقت ایک بنیادی حق ہے۔

جسٹس اے ایم کھانولکر کی سربراہی میں بنچ نے راجستھان کے کسانوں کی تنظیم 'کسان مہا پنچایت' کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لکھیم پور کھیری تشدد میں کئی کسانوں اور دیگر کی ہلاکت کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے اس طرح کے پر تشدد تحریکوں پر سوال کرتے ہوئے سخت تنقیدیں کی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ احتجاج کرنے کے بنیادی حقوق کے معاملے پر ایک بڑا بنچ غور کرے گا۔ اس موضوع سے متعلق دیگر زیر التوا معاملات کو عدالت عظمیٰ میں منتقل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے پوچھا کہ نئے زرعی قوانین پر مرکز کی پابندی کے بعد بھی سڑکوں پر احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے؟ عدالت نے زرعی قوانین کو روک دیا ہے اور ایگزیکٹو نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود ہر روز سڑکوں پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں ، لیکن پرتشدد واقعات کی صورت میں کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔

عدالت نے کہا کہ زرعی قوانین کی صداقت کا فیصلہ عدالت کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا اور صرف عدالت اس سے متعلقہ تمام ضروری سماعت کر رہی ہے۔

ایڈوکیٹ اجے چودھری ، جو کہ مہا پنچایت کی طرف سے پیش ہوئے نے، کہا کہ مظاہرے ، مذاکرات اور مباحثہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔

درخواست گزار کسان مہا پنچایت کے وکیل نے کہا کہ کسان احتجاجی مقام کے اطراف اور سڑکوں پر ٹریفک کو روکنے میں شامل نہیں تھے۔ پولیس سڑکوں کو جام کرتی ہے۔ اس سے قبل کی سماعت میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے حکم پر پولیس سڑکیں بند کرتی ہیں ۔

مزید پڑھیں:لکھیم پور تشدد: متاثرین کے اہلِ خانہ کو معاوضہ اور سرکاری نوکری کا اعلان

کسان مہا پنچایت کو ستیہ گرہ کے لیے جنتر منتر پر اجازت دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ اب اگلی سماعت 21 اکتوبر کو کرے گی۔

واضح رہے کہ مہا پنچایت نے اپنی درخواست میں نئی دہلی کے جنتر منتر علاقے میں 200 کسانوں کے ساتھ پرامن ستیہ گرہ کی اجازت مانگی ہے، اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا کہ حکومت اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.