نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا جس میں 1990 میں کشمیر میں کشمیری پنڈتوں اور سکھوں کی مبینہ ہلاکتوں کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) سے جانچ کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کشمیر میں آباد ہندوؤں کی بڑی تعداد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی تھی اور جموں و کشمیر کے دوسرے شہروں ادھم پور اور جموں منتقل ہونے کے علاوہ ریاست سے باہر بھی چلے گئے تھے۔ Supreme Court refuses to entertain plea on kashmiri pandits migration and killings
جب عدالت عظمیٰ میں دوخواست پیش ہوئی تو جسٹسز بی آر گاوائی اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے عرضی گزار ایک غیر سرکاری تنظیم ( این جی او) وی دی سیٹیزنز کو مرکزی حکومت سے رجوع کرنے اور حکومت کے سامنے اپنی شکایات رکھنے کا مشورہ دیا۔ ایڈوکیٹ برون کمار سنہا نے جو درخواست گزار تنظیم کی طرف سے پیش ہوئے، جموں و کشمیر میں ہندوؤں کی حالت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ SC On Kashmiri Pandits
بنچ نے دہرایا کہ عرضی گزار حکومت ہند کے ساتھ ان معاملات کو اٹھا سکتے ہیں۔ اس تجویز کو مانتے ہوئے وکیل نے درخواست واپس لینے کی اجازت مانگی۔ عدالت عظمیٰ نے اس کی اجازت دی اور درخواست گزار کو آزادی دی کہ وہ متعلقہ حکام کے سامنے اپنی نمائندگی داخل کرے اور درخواست واپس لے۔ پی آئی ایل میں ایس آئی ٹی جانچ کی مانگ کے علاوہ وادی سے ہجرت کرنے والوں کی بازآبادکاری کے لیے اقدامات اٹھانے کی درخواست کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:۔ Kashmiri Migrant Pandits Protest کشمیری پنڈت ملازمین کا احتجاج
عرضی میں استدعا کی گئی کہ ایس آئی ٹی ان لوگوں کی شناخت کے لیے تشکیل دی جائے جنہوں نے سابقہ ریاست میں 1989-2003 کے درمیان ہندو اور سکھ برادریوں کی 'نسل کشی میں مدد اور حوصلہ افزائی کی'۔ این جی او نے الزام لگایا کہ اس وقت پولیس اور دیگر ریاستی مشینری حکمران سیاسی جماعتوں کی قیادت سے اس قدر متاثر تھی کہ 'مذہبی قتل و غارت' کے مجرموں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔