آزاد بھارت کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، پہلا 15 اگست، جس دن ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا اور دوسرا 26 جنوری جس دن قانون کا بھارتی آئین کا نفاذ ہوا۔
آزاد بھارت کا اپنادستور بنانے کیلئے ڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں29 اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جسے ملک کا دستور مرتب کرنے میں 2 سال 11 ماه اور 18دن لگے، دستورساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر ایک شق پر کهلی بحث ہوئ، پھر 26 نومبر 1949 کو اسے قبول کر لیا گیا اور 24 جنوری 1950 کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئےدستور پر دستخط کردیا۔
اس دوران مولانا حسرت موہانی نےمخالفت کرتے ہوئےدستور کے ڈرافٹ پرایک نوٹ لکها کہ "یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اور توسیع ہےجس سے آزاد بھارتیوں اور آزاد بھارت کا مقصد پورا نہیں ہوتا" بہرحال 26 جنوری 1950 کو اس نئے قانون کو نافذ کر کے پہلا "یوم جمہوریہ" منایا گیا۔
اس طرح ہرسال 26 جنوری کو "یوم جمہوریہ " کے طور پر پورے جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
200 سالوں کی غلامی کے بعد ہمارا ملک 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ اس دوران ہزاروں اور لاکھوں مجاہد آزادی نے جدوجہد کی اور اپنے جانوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران بڑی تعداد میں علماء نے حصہ لیا اور اپنے جانوں کی قربانی دی۔ اس دوران سینکڑوں علماء کو انگریزوں نے پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا لیکن اس سے کسی مجاہد آزادی کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی اور آخر کار انگریزوں کو 15 اگست 1947 کوملک چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔
آزادی کے بعد ہمیں دستور کی ضرورت پڑی اور اس پر بحث ہوئی کہ ملک کادستور کیسا ہو، مذهبی ہو یالامذہبی، اقلیت واکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں، آزادی کےبعدملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہند کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جمعیت علماءہند کے ناظم عمومی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نےبحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کو مراعات دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ آیئن کے ابتدائی حصےمیں صاف صاف یہ لکھا گیا ہے کہ ہم بھارتی عوام تجویز کرتے ہیں کہ " بھارت ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری، بھارت کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادی اظہار رائے، آزادی عقیدہ ومذہب وعبادات، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکها جائے گا"
1971میں اندرا گاندهی نے دستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ "سیکولر" کا اضافہ کیا تھا۔ بھارتی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار وخیالات اور تہذیب وتمدن کے لوگ آباد ہیں اور یہی رنگارنگی یہاں کی شناخت ہے۔
26 جنوری کو اسی مساوی دستور وآئین کی تائید میں اور کثیرالمذابب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک بھارت کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لئے "جشن جمہوریت "منا کر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین ومرتبین اورملک کی آذادی میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے۔
انگریزوں نے"ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ساتھ 1601 میں تجارت کی غرض سے بھارت میں داخلہ لیا۔ اس وقت بھارت میں جہانگیر بادشاه کی حکومت تهی (وہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تها، اس کااصل نام سلیم نورالدین اور لقب جہانگیر تها) اس نے انگریزوں کا خیرمقدم کیا لیکن انگریزوں کو باقاعده تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاه خرم (شاہجہاں) نے دی۔
رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑ میں فوجیوں کو انگلستان سے بلانا شروع کردیا) لیکن دہلی میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تهی کہ انگریزوں کو خاطر خواه کامیابی نہیں ملی۔ شاہجہاں کےدوسرےلڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی۔
اٹهارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا شیرازہ بکھرتے ہی انگریزوں کے عروج کا دور شروع ہوگیا، عیار اور شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضے کا منصوبہ بنا لیا۔ بھارتیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا منصوبہ طے کر لیا۔
ان کے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بهانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی میں جس مرد مجاہد نے انگریزوں سےمقابلہ کیا اور1757 میں جام شہادت نوش کیا وه شیر بنگال نواب سراج الدولہ تھے۔ پھر 1799 میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور ٹیپو سلطان نےملک پرجان نچھاور کر دی، جس کی شہادت پر انگریز فاتح لارڈ ہارس نے فخر ومسرت کے ساته یہ اعلان کیا تها کہ "آج سے بھارت ہمارا ہے" 1803 میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت "شاه عالم ثانی "سےجبراً ایک معاہده لکھوایا کہ "خلق خداکی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا" یہ بات اس قدر عام ہوگئی کہ لوگ کہنے لگے کہ "حکومت شاہ عالم از دہلی تاپالم" یہ معاہده گویا اس بات کا اعلان تها کہ بھارت سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکاہے، وحشت وبربریت، ظلم وستم کی گهنگهور گهٹائیں پوری فضا کو گهیر چکی ہیں، وطنی آزادی اورمذہبی تشخص ان کے رحم وکرم پر ہوگی۔
ایسے ماحول اور پرفتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے شاه عبدالعزیز دہلوی نے پوری جرأت و بےباکی کے ساتھ فتویٰ جاری کیا کہ "بھارت دارالحرب ہے" یعنی اب ملک غلام ہوچکا ہے، لہذا بلاتفریق مذہب وملت ہر بھارتی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے۔
ان کے فتوے کی روشنی میں علماء کهڑے ہو گئے، سید احمد شہید اور شاه اسماعیل شہید آگے بڑهے اور پورے ملک کادوره کرکے قوم کو جگایا اور ان میں حریت کا جزبہ پیدا کرکے آزادی کی چنگاری پیدا کر دی اور 1831 کو بالاکوٹ کی پہاڑی پر لڑ کر جام شہادت نوش کیا۔
دهیرے دهیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنے لگی۔ 1857 میں علماء نے پھر جہاد کا فتویٰ دیا۔
دوسری جانب انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تهیں اور بھارت سے مذہبی بیداری وسرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بےشمار عیسائی مبلغین (پادری ) کو بھی میدان میں اتار دیا تها، جسے انگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تهی، جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کی تشہیر کرتے۔
اس دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکو مت نے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لئے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لئے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا براده ملا دیا ہے۔ اس کے علاہ کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوا دیا ہے۔
ان واقعات نے بھارتیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک ایسی چنگاری پیدا کی کہ انگریزی فوج میں ملازمت کررہے ہندو مسلم سب نے زبردست احتجاج کیا۔
کولکتہ سے احتجاج کی جو یہ چنگاری اٹهی تھی وہ دھیرے دھیرے انبالہ، لکھنئو، میرٹھ، مراداباد، اور سنمبھل وغیرہ تک پہنچتے پہنچتے شعلہ جوالہ بن گئی۔
احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی اور جہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت سے سخت کاروائی کی گئی، احتجاجیوں کی بندوقیں چهین لی گئیں، وردیاں پهاڑ دی گئیں۔
1857میں شاملی کے میدان میں مرشد علماء حاجی امداد اللہ مہاجر کی قیادت میں بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید وغیرہ نے انگریزوں سے مقابلہ کیا۔ اس لئ بعد بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر آزادی کے دیوانو ں نے دہلی کارخ کیا اور پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے لیکن انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئی اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857 کو لال قلعہ پر باقاعده قبضہ کر لیا اور سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاه ظفر کو گرفتار کرکے رنگون (برما) جلاوطن کر دیا گیا۔
ستاون کی جنگ جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا تها، اس جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نےظلم وستم کی ایسی بجلیاں گرائی، جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلم اور علماء تھے۔ اس لئے بدلہ بهی چن چن کر سب سے زیادہ انہیں سے لیا گیا۔
دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاش لٹکی ہوئی نہیں تھی، چالیس ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھا۔ 30مئی 1866کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے ساتھیوں نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر "دارالعلوم دیوبند" کے نام سے مشہور ہوا۔
1878میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی جو آگے چلکر"شیخ الهند" کےلقب سے مشہور ہوئے، نے "تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الهند" بزبان حکومت برٹش "ریشمی خطوط سازش کیس شروع کی۔ انہوں نے " ثمرة التربیت" کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی جس کا مقصد انقلابی مجاہدين تیار کرنا تها۔
اس دوران 1911 میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کلکتہ سے الهلال اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پهونکا تھا۔ 1915میں ریشمی رومال کی تحریک چلی، 1916 میں ہندو مسلم اتحادکی تحریک شروع ہوئی، 1917 میں مہاتما گاندھی نے چمپارن میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہگرہ تحریک چلائی۔
1919 میں "جمعیۃالانصار" کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی، جس کے پہلے ناظم مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے۔ 1919میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی اجلآس میں باضابطہ "جمعیت علماء هند" کی تشکیل ہوئی، جس کے پہلے صدر مفتی محمد کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے، 1919 میں ہی امرتسر کےجلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے بے شمار بھارتی شہید ہوئے۔
1920میں حضرت شیخ الہند نے ترک موالات کا فتوی دیا، جسےمولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کر کے جمعیت کی طرف سے شائع کیا۔ 1921 میں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ "گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے" 1922 میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے شدهی اور سنگهٹن تحریکیں شروع کیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانہ پر ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پهوٹ پڑے۔
1926میں کلکتہ میں جمعیت کے اجلاس میں جس کی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی نے کی، مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئی۔ 1935 میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایا گیا۔ 1942 میں انگریزوں بھارت چھوڑوں تحریک شروع ہوئی اور بالآخر برٹس سرکار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی اور 15 اگست 1947 کوملک آزاد ہوگیا لیکن آزادی کی صبح اپنے ساتھ تقسیم وطن کا ایک ناقابل فراموش سانحہ بھی ساتھ لائی۔