ETV Bharat / bharat

خصوصی رپورٹ: کسانوں کے احتجاج کو 100 دن مکمل

author img

By

Published : Mar 5, 2021, 10:51 PM IST

گزشتہ برس بی جے پی حکومت نے پارلیمنٹ میں زرعی شعبے میں اصلاحات کی غرض سے تین نئے زرعی قوانین متعارف کروائے جس کی مخالفت میں کسانوں نے احتجاج شروع کردیا اور ان قوانین کو واپس لینے کی مانگ کی۔ اور اس مطالبے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی جو آج بھی دہلی کی مختلف سرحدوں پر جاری ہے۔

Special report on farmer protest
Special report on farmer protest

زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے احتجاج کو 100 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس کی شروعات 26 نومبر کو اس وقت ہوئی جب سینکڑوں ٹریکٹر قومی دارالحکومت دہلی کی طرف ملک کی مختلف ریاستوں سے روانہ ہوئے۔

زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے احتجاج

دہلی کی سرحد تک پہنچنے کی جدوجہد کے دوران کسانوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہیں کئی مقامات پر پولیس نے روکا۔ ان کے خلاف کاروائیاں ہوئیں۔ مرکزی حکومت نے احتجاج کے مقام پر کسانوں کو چاروں طرف سے گھیرنے کی بھی بھرپور کوششیں کی۔ بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی کی گئی۔ سخت ترین سردیوں کے ایام میں پولیس کے ذریعہ واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے بھی ان پر داغے گئے لیکن پولیس کی سختی کے سامنے وہ ڈٹے رہے اور آج بھی ان کا احتجاج پوری قوت اور شدومد کے ساتھ جاری ہے۔

اس احتجاج کو شروع کرنے کا سہرا پنچاب اور ہریانہ کے تقریباً تین سے چار لاکھ کسانوں کے سر جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور اس احتجاج نے قومی سطح پر زور پکڑ لیا۔ ملک کی کئی ریاستوں سے کسان اور عام شہری ان سرحدوں پر پہنچنے لگے اور چند ہی دنوں میں ملک کی دیگر ریاستوں کے کسان اور عام شہری بھی سِنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈ سمیت دیگر مظاہروں کے مقام پر پہنچ کر وہاں خیمہ زن ہوگئے۔

حکومت اور کسانوں نے پہلے ہی دن یہ واضح کردیا تھا کہ ان کی بات چیت کے درمیان کوئی بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔

اس دوران حکومت اور کسانوں کے مابین 11 میٹینگز بھی ہوئیں لیکن سبھی بے نتیجہ رہیں اور کسان ان قوانین کو واپس لینے پر بضد رہے جبکہ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے ٹریکٹر ریلی بھی نکالی جس دوران پولیس اور کسانوں کے درمیان تصادم ہوا جبکہ ایک گروپ لال قلعہ میں داخل ہوکر وہاں اپنے پرچم لہرائے جس کی گونج پور ملک میں سُنی گئی۔

لال قلعہ تشدد کیس میں پولیس نے 44 رپورٹز درج کیں جبکہ اس ضمن میں قریب 150 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی اب پوری طرح سے کسانوں کی حمایت میں آ چکی ہیں۔کانگریس، عام آدمی پارٹی، سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس، راشٹریہ جنتا دل سمیت دیگر پارٹیوں کے رہنما بھی کسان رہنماؤں سے ملاقات کرنے لیے الگ الگ سرحدوں کا دورہ کر چکے ہیں اور اپنی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں، اس کے باوجود مرکزی حکومت ان متنازع قوانین کو واپس لینے کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہے۔

گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں شروع کیے گئے کسانوں کے احتجاج کو 100 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک کسان رہنماؤں اور حکومت کے مابین مذاکرات ناکام رہے ہیں۔ مستقبل میں کسانوں کا یہ احتجاج کون سا رخ اختیار کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے احتجاج کو 100 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس کی شروعات 26 نومبر کو اس وقت ہوئی جب سینکڑوں ٹریکٹر قومی دارالحکومت دہلی کی طرف ملک کی مختلف ریاستوں سے روانہ ہوئے۔

زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے احتجاج

دہلی کی سرحد تک پہنچنے کی جدوجہد کے دوران کسانوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہیں کئی مقامات پر پولیس نے روکا۔ ان کے خلاف کاروائیاں ہوئیں۔ مرکزی حکومت نے احتجاج کے مقام پر کسانوں کو چاروں طرف سے گھیرنے کی بھی بھرپور کوششیں کی۔ بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی کی گئی۔ سخت ترین سردیوں کے ایام میں پولیس کے ذریعہ واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے بھی ان پر داغے گئے لیکن پولیس کی سختی کے سامنے وہ ڈٹے رہے اور آج بھی ان کا احتجاج پوری قوت اور شدومد کے ساتھ جاری ہے۔

اس احتجاج کو شروع کرنے کا سہرا پنچاب اور ہریانہ کے تقریباً تین سے چار لاکھ کسانوں کے سر جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور اس احتجاج نے قومی سطح پر زور پکڑ لیا۔ ملک کی کئی ریاستوں سے کسان اور عام شہری ان سرحدوں پر پہنچنے لگے اور چند ہی دنوں میں ملک کی دیگر ریاستوں کے کسان اور عام شہری بھی سِنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈ سمیت دیگر مظاہروں کے مقام پر پہنچ کر وہاں خیمہ زن ہوگئے۔

حکومت اور کسانوں نے پہلے ہی دن یہ واضح کردیا تھا کہ ان کی بات چیت کے درمیان کوئی بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔

اس دوران حکومت اور کسانوں کے مابین 11 میٹینگز بھی ہوئیں لیکن سبھی بے نتیجہ رہیں اور کسان ان قوانین کو واپس لینے پر بضد رہے جبکہ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے ٹریکٹر ریلی بھی نکالی جس دوران پولیس اور کسانوں کے درمیان تصادم ہوا جبکہ ایک گروپ لال قلعہ میں داخل ہوکر وہاں اپنے پرچم لہرائے جس کی گونج پور ملک میں سُنی گئی۔

لال قلعہ تشدد کیس میں پولیس نے 44 رپورٹز درج کیں جبکہ اس ضمن میں قریب 150 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی اب پوری طرح سے کسانوں کی حمایت میں آ چکی ہیں۔کانگریس، عام آدمی پارٹی، سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس، راشٹریہ جنتا دل سمیت دیگر پارٹیوں کے رہنما بھی کسان رہنماؤں سے ملاقات کرنے لیے الگ الگ سرحدوں کا دورہ کر چکے ہیں اور اپنی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں، اس کے باوجود مرکزی حکومت ان متنازع قوانین کو واپس لینے کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہے۔

گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں شروع کیے گئے کسانوں کے احتجاج کو 100 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک کسان رہنماؤں اور حکومت کے مابین مذاکرات ناکام رہے ہیں۔ مستقبل میں کسانوں کا یہ احتجاج کون سا رخ اختیار کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.