برصغیر پاک و ہند میں صدر دروپدی مرمو اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی دو ایسی خواتین ہیں جو اپنی استقامت اور تمام شعبوں میں خواتین کی مساوی شراکت کیلئے جدوجہد کی آئینہ دار مانی جارہی ہیں۔ شخصیات کی مشہوری ان حالات اور عوامل پر منحصر ہے جن کی وجہ سے وہ مقبولیت حاصل کر رہے ہیں، لیکن یہ عوامل کبھی کبھار معاشرے کے ناخوشگوار پہلو کو بھی ظاہر کر سکتے ہیں ہے۔ مزید برآں، یہ کبھی کبھی ارتقاء اور ترقی کے پرکشش پہلو کا بھی مظہر ہوتے ہیں جو انکے عروج کو مزید مترشح کردیتا ہے۔ Divergent narratives of two tribes, one represented by Indian President and another by Pak Nobel laureate
پاکستان کے خیبرپختونخواہ (کے پی کے) کے علاقے سے تعلق رکھنے والی پشتو قبائلی لڑکی ملالہ کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل پشتون قبیلے کے عسکریت پسندوں نے گولی مار دی تھی جنہوں نے اسلامی قانون کی بنیاد پر قبائلی خواتین کے اسکول جانے پر پابندی عائد کی تھی۔ اسے گولی مار دی گئی کیونکہ اس نے عسکریت پسندوں کے احکامات کی خلاف ورزی کی لیکن اسکے باوجود ملالہ نے اپنی تعلیم جاری رکھی، اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ وہ اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھنے کے بعد نمایاں ہوئیں جہاں اسے جان کو خطرہ تھا۔ اس کی لگن اور بے خوفی نے اسے نوبل امن انعام کا حقدار بنایا ۔ ملالہ کا نام اب پاکستان کے سابق فاٹا (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے) کے علاقے میں خواتین پر انتہا پسند قبائلیوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کی ایک یادگار بن گیا ہے۔
دوسری جانب دروپدی مرمو کا قبائلی گاؤں کی لڑکی سے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنا ہندوستان کے قبائلی ارتقاء کی مثال ہے۔ وہ سنتھال قبیلے کی رکن ہے۔ سنتھال قبیلہ زیادہ تر چار بھارتی ریاستوں مغربی بنگال، اڈیشہ، آسام اور جھارکھنڈ میں پایا جاتا ہے، جن کی اب ملک کے پہلے قبائلی صدر کے طور پر مرمو اعلیٰ ترین سطح پر نمائندگی کرتی ہیں۔ مرمو اسلئے امتیازی درجے کی حامل ہیں کیونکہ وہ سنتھال ہے حالانکہ صدر بننا امتیاز نہیں ہے کیونکہ بھارت میں پہلے ہی ایک خاتون یہ عہدہ سنبھال چکی ہیں۔ مرمو کا کلاس روم ٹیچر سے راشٹرپتی بھون تک کا سفر ہندوستان میں قبائلی لوگوں کی مجموعی ترقی کے لیے ایک مثال ہے۔
جس دن حکمران جماعت بی جے پی نے اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر دروپدی مرمو کا اعلان کیا، سنتھال قبیلہ پورے ہندوستان میں شہرت کی طرف بڑھ گیا۔ لوگ اس قبیلے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے متجسس تھے کہ صدارتی امیدوار کا تعلق کس قبیلے سے ہے۔ سنتھال، جو ہندوستان کے کل آٹھ فیصد قبائلی لوگوں میں سب سے بڑی قبائلی برادری ہیں۔ان کے طرز زندگی اور سیاسی ذہانت کے بارے میں بے شمار کہانیوں کے ساتھ میڈیا میں ان کی وسیع پیمانے پر پروفائلنگ کی گئی۔
بہادری اور لڑنے کی صلاحیت کے لحاظ سے سنتھال قبائل کو پڑوسی ملک پاکستان میں خیبر پختونخواہ کے پشتونوں کے ساتھ تقابل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جیسے پشتونوں نے سابقہ صوبہ سرحد (شمال مغربی سرحدی صوبہ) کے خان غفار خان جیسے آزادی پسندوں کو پیدا کیا، سنتھالوں نے بھی ایسے لیڈر پیدا کیے ہیں جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ سنتھال قبیلے کے آزادی پسندوں میں سے ایک تلکا مانجھی نے انگریزوں کے خلاف پہلی قبائلی مسلح بغاوت کی قیادت کی۔ تھلاکال چندو نے ایک اور سنتھال سے لڑ کر کیرالہ میں برطانوی قلعے پر قبضہ کر لیا جسے بعد میں قتل کر دیا گیا۔ بھیرسا منڈا، ایک مشہور سنتھال اور آزادی پسند جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی اور بعد میں قبائلیوں کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا ضابطہ حیات دیا۔
پشتونوں نے غفار خان جیسے بہت سے لیڈر بھی پیدا کیے جو اسی خطے کی پیداوار تھے جس نے ملالہ یوسف زئی کو جنم دیا۔ جہاں خان ہمیں گاندھی اور نہرو اور ظلم اور قبضے کے خلاف ان کی لڑائی کی یاد دلاتا ہے، ملالہ ہمیں خواتین کو حقوق سے محرومی اور انکے خلاف ہونے والے مظالم کی یاد دلاتا ہے۔ ملالہ اور مرمو دو قبیلوں کے مختلف اور متوازی بیانیوں کا مظہر ہیں۔ ایک تبدیلی کے لیے اپنانے کے لیے کھلا ہے، جبکہ دوسرا اپنے طریقوں میں سخت ہے اور تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملالہ ایک ظالمانہ پدرانہ قبائلی معاشرے کو ظاہر کرتی ہے جو کسی بھی تعمیری تبدیلی کے خلاف مزاحم ہے، جبکہ مرمو قوم کی تعمیر میں ایک جامع نقطہ نظر کی ایک بہترین مثال ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Droupadi Murmu Takes Oath: دروپدی مرمو بھارت کی 15ویں صدر بنیں، سی جے آئی نے دلایا حلف
پشتون اور سنتھال قبائل کا معروضی جائزہ لیں تو معلوم پڑے گا پشتون ہمیشہ سے ایک آزاد اور خود مختار رہے ہیں جن کے پاس وسائل تک آسان رسائی ہے جبکہ سنتھال کے لوگوں کو وسائل تک کم رسائی حاصل رہی ہے اور وہ ہمیشہ پسماندہ رہے ہیں۔ سنتھال، اقتصادی طور پر ایک غریب طبقہ تھا جو پہلے پاور کوریڈورز میں کم نمائندگی رکھتا تھا لیکن اس نے اب سیاسی اور دیگر شعبوں میں پہچان اور شہرت حاصل کی ہے جب کہ پشتون، جو سیاسی اور معاشی طور پر ایک مضبوط کمیونٹی ہے، اپنی طاقت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے اور دن بدن کمزور ہوتے گئے۔ پشتونوں کی مذاکراتی پوزیشن کمزور پڑ گئی کیونکہ انہوں نے تشدد کو مذاکراتی حربوں کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستانی فوج نے اپنی حکمت عملیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن کیے، جس میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے۔ پاکستان نے ضرورت پڑنے پر قبائلی عوام کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ پاکستان نے انہیں 80 کی دہائی میں روس کے خلاف افغانوں کے لیے لڑنے کیلئے استعمال کیا جبکہ ہندوستان جیسی حریف ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں بھی پشتون استعمال ہوئے۔
پشتون اپنی بات منوانے کیلئے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سنتھال تیر اور کمان کو اپنی بہادری دکھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی قبائلی بہادری کو سنتھالوں نے آہستہ آہستہ کھیلوں، فنون، شاعری، ادب اور سیاست کے ذریعے طاہر کرکے اپنی برادری کو بااختیار بنایا اور اپنا وجود منوایا ۔ یہ حقیقت جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین، پورنیما ہیمبرم جیسی کھلاڑی اور فلم ساز دیویا ہنسدا کی شکل میں نظر آتی ہے۔بنیتا سورین نے اس وقت مقبولیت حاصل کی جب وہ ایورسٹ کو سر کرنے والی سنتھال قبیلے کی پہلی رکن بنیں۔ سب سے بڑھ کر، صدر مرمو اپنے آئین کو برقرار رکھنے میں قوم کی قیادت کریں گے دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج کی کمان کریں گے۔بطور صدر جمہوریہ انکے انتکاب سے انکے قبیلے میں یہ امید جاگ گئی ہے کہ ان ان مطالبات کے پورا ہونے کا بھی وقت آگیا ہے جو اب تک پورے نہیں کئے جاسکے ہیں۔