بھارت میں اب تک سامنے آئے کیسز کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ اس خطرناک صورتحال نے متعلقہ دس ریاستوں میں لوگوں کو ہِلا کر رکھ دیا ہے۔
بھارت میں کورونا وبا کی دوسری لہر میں وائرس کی وہ قسم پائی جارہی ہے جو جنوبی افریقہ، برطانیہ اور برازیل سے نمودار ہوئی ہے۔ لوگوں کے گرد اپنا حصار تنگ کرنے والے کورونا وائرس میں کئی طرح خطرناک تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
اس وبا کی پہلی لہر میں متاثرین میں ظاہر ہونے والی عام علامات کے برعکس اب ہسپتالوں میں پہنچائے جانے والے متاثرین کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت دیکھنے میں ملتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے طبی شعبہ بے بسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
سینٹر فار سلیولر اینڈ مولیکیولر بائیولوجی (سی سی ایم بی) نے اس ماہ کے پہلے ہفتے میں کہا تھا کہ یہ وائرس متاثرہ شخص سے دو میٹر کی دوری تک اثر انداز ہوسکتا ہے اور جن جگہوں پر یہ وافر مقدار میں موجود ہو وہاں یہ ہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بھی متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس ہوا کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ ناک اور منہ کے علاوہ وائرس آنکھوں کے راستے سے بھی جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔
گزشتہ برس وبا کی وجہ سے سماجی اور معاشی سطح پر جو تباہی ہوئی ہے اس طرح کی تباہی جنگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اب اس کی دوسری لہر نے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔
اس مہلک وائرس کی وجہ سے بے بسی میں مہاراشٹر حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان کیا اور اس کے بعد دہلی حکومت نے بھی یہی راستہ اپنایا۔ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اُتر پردیش کے اُن پانچ اضلاع میں لاک ڈاون کرنے کے احکامات دیئے ہیں جو وبا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔
چونکہ ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اس لیے ہسپتالوں میں بیڈز، آکسیجن، وینٹی لیٹرز اور اہم ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت نے آکسیجن سپلائی، ویکسین اور ادویات پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن عملی طور پر وبا کو قابو کرنے کے لیے شہریوں کو احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے۔ احتیاطی اقدامات کے ذریعے کورونا وبا کو پھیلنے سے 70 فیصد روکا جاسکتا ہے۔
کووڈ 19 کی وجہ سے دُنیا بھر میں 13 کروڑ لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور اس کے نتیجے میں 30 لاکھ انسانی زندگیاں بھی تلف ہوئی ہیں۔ ویکسین تیار کرنے کا کام جنگی پیمانے پر شروع کیا گیا اور 70 کروڑ لوگوں کو اب تک ویکسین لگواچکے ہیں لیکن اس کے باوجود وائرس نئی شکل میں بنی نوع کے لیے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔
وائرس سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر ویکسین تیار کرنے کے لیے تحقیق کا کام مسلسل جاری ہے۔ مرکز نے یکم مئی سے تمام بالغ شہریوں(18 برس سے زیادہ کی عمر) کو ٹیکے لگوانے کی منظوری دے دی ہے لیکن اس سے پہلے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو لوگوں کے دِلوں میں ابھرنے والے شکوک و شبہات کو دُور کرنا ہوگا۔ لوگوں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ویکسین لگوانے سے مریضوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
سب کو معلوم ہے کہ کووڈ 19 کو دور رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ ہاتھوں کو سیناٹائزر سے صاف کرنا اور ماسک پہننا ہے۔ ہر کسی کو چاہیے کہ دوسروں سے ملتے وقت دو فٹ کی جسمانی دوری بنائے رکھے۔ ان اقدامات سے کووڈ 19کو قابو کیا جاسکتا ہے۔
جنوبی کوریا نے وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ طریقہ اپنایا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے کام کو دائیں اور بائیں ہاتھوں میں بانٹ دیا ہے یعنی اگر اُنہیں ماسک کو درست کرنا ہو یا آنکھوں کو ملنے کی ضرورت پڑے تو وہ یہ کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں جبکہ دروازہ کھولنے یا پیسوں کا لین دین کرنے کے لیے بائیں ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران لوگوں نے جس غفلت کا مظاہرہ کیا، اس کے نتیجے میں دوسری لہر پھیل گئی ہے۔ اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ہر صورت میں احتیاطی اقدامات اختیار کرے۔ اگر اس وبا سے نمٹنا ہے اور سانحات سے بچنا ہے تو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔