کٹک: صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے چاول کو ہندوستان کے غذائی تحفظ کا سنگ بنیاد اور معیشت کا اہم جز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے اس اناج کو جسم میں پروٹین، وٹامن اور دیگر ضروری مائیکرو غذائی اجزاء فراہم کرنے کا ذریعہ بنا کر عدم تغذیہ سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مرمو انڈین ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کیمپس میں دوسرے 'انڈین رائس کنونشن' کا افتتاح کر رہی تھیں۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ چونکہ چاول ہماری غذائی تحفظ کی بنیاد ہے اس لیے ہمیں اس کے غذائی پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس سمت میں ہندوستانی زرعی سائنسدانوں کی حصولیابیوں کی تعریف کی اور اسے معاشرے کی خدمت میں سائنس کی بہترین مثال قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے گروپوں کا ایک بڑا حصہ چاول پر انحصار کرتا ہے، جو اکثر ان کے لئے روزمرہ کی غذائیت کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ اس لیے چاول کے ذریعے پروٹین، وٹامنز اور ضروری مائیکروغذائی اجزاء فراہم کرنے سے غذائی قلت سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آئی سی اے آر-این آر آر آئی ہندوستان کا پہلا ہائی پروٹین سی آر دھان 310 تیار کیا ہے اور این آرآرآئی نے سی آر دھان 315 نامی ایک اور نئی قسم جاری کی ہے جس میں زنک کی مقدار زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بائیو طریقہ کار سے فصلوں کی غذائیت کو مضبوط کرنا ’سماج کی خدمت میں سائنس کی ایک بہترین مثال ہے۔ صدر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے دور میں آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کی زیادہ سے زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ صدر جمہوریہ نے یقین ظاہر کیا کہ ہندوستان کی سائنسی برادری اس چیلنج کا مقابلہ کرے گی۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ اگرچہ ہندوستان آج چاول کا سب سے بڑا صارف اور برآمد کنندہ بن گیا ہے، جبکہ ایک وقت ملک بھوک مٹانے کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بہت کریڈٹ نیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو جاتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے ہندوستان کے غذائی تحفظ اور کسانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں بھی بہت تعاون کیا ہے۔ مرمو نے کہا کہ دھان کی فصل کے لئے بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن دنیا کے کئی حصے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی کی شدید کمی کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ چاول نے نئی زمین بنائی ہے لیکن ایسی جگہیں ہیں جہاں روایتی اقسام کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس طرح، آج ہمیں درمیانی راستہ تلاش کرنا ہے۔ ایک طرف روایتی اقسام کا تحفظ کرنا اور دوسری طرف ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا ہے۔
مرمو نے کہا کہ ایک اور چیلنج زمین کو کیمیاوی کھاد کے زیادہ استعمال سے بچانا ہے۔ چاول کی جدید کاشت کے لیے کیمیائی کھادیں ضروری سمجھی جاتی ہیں لیکن ہمیں اپنی زمین کو صحت مند رکھنے کے لیے ایسی کھادوں پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ہندوستانی سائنس دان ماحول دوست چاول کی پیداوار کے نظام کو تیار کرنے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔
یواین آئی