پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں، انہوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی، سنہ 1968 میں انہوں نے جامعہ کراچی سے انگریزی میں ایم اے کیا جبکہ ہاورڈ امریکہ سے بینک اینڈ ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا۔
عمر کی صرف 42 بہاریں دیکھنے والی اس خوبصورت شاعرہ نے اردو شاعری کو لازوال تحفے دیے ہیں، جسے اردو دنیا کبھی بھلا نہیں سکتی۔
تعلیم سے فراغت کے بعد وہ ملازمت سے جڑ گئیں اور مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہیں، انھوں نے خواتین کو یہ پیغام دیا کہ ایک ملازمت پیشہ عورت ایک ساتھ کئی کام کو انجام دے سکتی ہے ، گھریلو ذمہ داری ، ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کی تسکین بھی کر سکتی ہے۔
ابتداً وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوکر انگریزی زبان وادب کی لیکچرر ہوئیں ، اس کے بعد سول سروس میں آکر کسٹم کلکٹرکے عہدہ پر فائز ہوئیں
اگرچہ پروین شاکر انگریزی میں مہارت رکھتی تھیں لیکن انہیں اردو شعر وادب سے بے پناہ لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بچپن سے اردو شعر وشاعری شروع کردی تھی۔
انھوں نے دوران تعلیم سے ہی مشاعروں اور مباحثوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور شہرت کی بلندی حاصل کی۔
پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت رہی ہے۔
پروین شاکر کا پہلا مجموعۂ کلام "خوشبو 1977 میں شائع ہوا۔
اس مجموعے کی غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرا میں شامل ہوگئیں۔
پروین شاکر کے دیگر مجموعے انکار، صد برگ اور خودکلامی وغیرہ شائع ہوئے جبکہ کفِ آئینہ ان کا آخری مجموعہ تھا۔
پروین شاکر کو شاعری پر مختلف قسم کے اعزاز ملے جن میں خاص کر حکومت پاکستان کا صدارتی اعزاز بھی شامل ہے۔
یہ خوبصورت شاعرہ اپنی شاعری کے بام عروج پر تھیں کہ اسی دوران 26 دسمبر 1994 کی صبح کو ایک سڑک حادثہ میں انتقال ہوگئیں۔
پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک ہوگئیں۔ ان کے کتبے پر حسب ذیل قطعہ کندہ ہے۔
یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے...
یہاں پروین شاکر کے کچھ منتخب اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
---
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
---
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
---
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
---
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
---
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
---
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
---
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
---
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
---
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
---
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
---
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
---
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
---
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
---
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
---
اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی
جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
---
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
---
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
---
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
---
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
---
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
---
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
---
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
---
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
---
اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
---
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے
---
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
---
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
---
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
---
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
---
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
---
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا
---
رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے
---
تھک گیا ہے دلِ وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
---
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
---
رستہ میں مل گیا تو شریک سفر نہ جان
جو چھاؤں مہرباں ہو اسے اپنا گھر نہ جان
---
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
---
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
---
مقتلِ وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح
---
ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو
---
جب ہوا تک یہ کہے ، نیند کو رخصت جانو
ایسے موسم میں جو خواب آئیں غنیمت جانو
---
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شِہرِ نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
---
اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہَوا کے،کیسے گلے سے لپٹ گئے
---
عشق دریا ہے، جو تیرے وہ تہی دست رہے
وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے
---
رنج سہنے کی مرے دل میں تب و تاب کہاں
اور یہ بھی ہے کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں
---
بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا
---
بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے ، لیکن
وہ جاتے جاتے انہیں کر گیا ہے پُر نم پھر
---
یہ غنیمت ہے کہ اُن آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
---
غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا
---
یہی تو وجہِ شکستِ وفا ہُوئی میری
خلوصِ عشق میں سادہ دلی کی آمیزش
---
برس سکے تو برس جائے اس گھڑی ، ورنہ
بکھیر ڈالے گی بادل کے سارے خواب ، ہوا
---
وہ دلنواز لمحے بھی گئی رُتوں میں آئے۔ جب
میں خواب دیکھتی رہی، وہ مجھ کو دیکھتا رہا
---
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا