آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے بدھ کے روز کہا کہ حجاب کے سلسلے میں کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی قرآن شریف کو صحیح طریقے سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوگا کہ قرآن نے حجاب کے بجائے تعلیم پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تعلیم ضروری ہے یا پھر حجاب... مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری تعلیم ہے۔ 'Quran Sharif focused on education, not hija' says Assam CM
واضح رہے کہ گزشتہ روز کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب معاملہ پر سماعت کی تھی اور ہائی کورٹ نے 17 فروری یعنی آج تک کے لئے سماعت کو ملتوی کردیا تھا۔ گزشتہ کل سماعت کے دوران عرضی گزار کے وکیل پروفیسر روی ورما کمار نے جرح کی۔
ایڈووکیٹ روی ورما کمار کی جرح کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران سینیئر ایڈووکیٹ پروفیسر روی ورما کمار نے کہا کہ اسکول و کالجز میں حجاب کے خلاف کوئی ممانعت نہیں ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان (طالبات) کو کس اختیار یا قواعد کے تحت کلاس سے باہر رکھا گیا ہے۔
سینیئر ایڈووکیٹ پروفیسر روی ورما کمار نے مزید کہا کہ کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ Karnataka Education Act کے تحت کوئی دفعات نہیں ہیں اور نہ ہی حجاب پہننے پر پابندی کے اصول ہیں۔
چیف جسٹس نے حجاب معاملہ کی سماعت کے لیے سہ رکنی بنچ تشکیل دی ہے، جس میں ان کے علاوہ جسٹس کرشنا دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی شامل ہیں۔Hijab Case Continues in Karnataka High Court۔
واضح رہے کہ جمعہ کو عدالت نے ریاست سے درخواست کی تھی کہ ابتدائی تعلیمی ادارے دوبارہ کھولے جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی ہدایت دی کہ جب تک اس کورٹ میں معاملے کی مکمل سنوائی اور فیصلہ نہ ہو تب تک کوئی بھی طالب علم چاہے وہ کسی بھی مذہب کا کیوں نہ ہو، مذہبی لباس پہن کر کلاسز میں داخل نہ ہو۔
ایڈوکیٹ پروفیسر روی ورما کمار نے کہا کہ ایک ایم ایل اے (جو کمیٹی کے صدر بھی ہیں) کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی نظریے کی نمائندگی کریں گے اور کیا آپ طلبہ کی فلاح و بہبود کو کسی سیاسی جماعت یا سیاسی نظریے کے حوالے کر سکتے ہیں؟
مزید پڑھیں:۔ Students Refuse to Enter College without Hijab: کالج دوبارہ کُھلے، طالبات کا حجاب کے بغیر داخلے سے انکار
انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی کمیٹی کی تشکیل ہماری جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایڈووکیٹ روی ورما کمار کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ آرڈر میں کسی دوسری مذہبی علامت کا ذکر نہیں ہے۔ صرف حجاب کیوں؟ کیا یہ ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں؟ مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک خالصتاً مذہب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ایڈووکیٹ کمار نے مزید کہا کہ حکومت صرف حجاب کا مسئلہ کیوں اٹھا رہی ہے؟ چوڑیاں پہننے والی ہندو لڑکیوں اور کراس پہننے والی عیسائی لڑکیوں کو باہر نہیں بھیجا جاتا جب کہ باحجاب مسلم طالبات کو کالج و اسکول کیمپس میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔