ETV Bharat / bharat

الیکشن کمیشن کے غیر جانبدارانہ رویہ پر اٹھتے سوالات

author img

By

Published : Apr 15, 2021, 12:19 PM IST

Updated : Apr 15, 2021, 1:09 PM IST

الیکشن کمیشن کے غیر جانبدار ہونے کے متعلق کئی سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔ مغربی بنگال میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں الزام تراشی کا دور جاری ہے، جو ایک جمہوری نظام کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ایسے میں ان مطالبات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اس سے متعلق درخواست ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔

انتخابی الیکشن کے غیر جانبدارانہ رویہ پر اٹھتے سوالات
انتخابی الیکشن کے غیر جانبدارانہ رویہ پر اٹھتے سوالات

بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ان باتوں پر توجہ دینے والا آج کوئی موجود نہیں ہے، جب انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ انتخابات میں غلط طریقے سے حاصل کی گئی جیت کو فتح کے نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔

سیاسی جماعتوں کے ذریعہ قوانین کی متواتر خلاف ورزی جمہوری اقدار کو گہری چوٹ پہنچا رہی ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے دوران اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ بنگال میں پانچویں، چھٹے، ساتویں اور آٹھویں مرحلے کے انتخابات ابھی باقی ہیں۔ تمل ناڈو، پڈوچیری، کیرالہ اور آسام میں اسمبلی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال انتخابات کے حوالے سے پہلے ہی اندیشے ظاہر کر دیئے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ 6400 پولنگ مراکز کی نشاندہی کر لی گئی ہے جہاں گڑبڑی ہونے کے امکان ہیں۔ لہذا یہاں مرکزی دستوں کی مضبوطی کے ساتھ تعیناتی کی جائے گی۔ لیکن انتخابی ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے کمیشن کی ساکھ داؤ پر لگ گئی۔ بی جے پی نے سنہ 2016 میں تین سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے بی جے پی یہاں پر پورا دم خم آزما رہی ہے۔

بی جے پی ہر حال میں ٹی ایم سی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اس سیاسی لڑائی میں ضابطۂ اخلاق سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ممتا بنرجی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے کہ وہ بی جے پی تشکیل کردہ 'پدمویہو' کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔

ممتا الزام لگا رہی ہیں کہ ان کے تئیں کمیشن کا رویہ سخت ہے، لیکن بی جے پی قائدین کے ساتھ نرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا نے طنزیہ انداز میں کمیشن کے ایم سی سی کو 'مودی ضابطۂ اخلاق' کے نام سے مخاطب کیا۔ اس معاملے سے متعلق کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھانا جمہوریت کے لیے خوش کن بات نہیں ہے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ایم ایس گل نے اپنے معیاد کے دوران کہا تھا کہ تمام تسلیم شدہ جماعتیں اپنے لیے آئینی اخلاقیات کا دائرہ خود ہی کھینچیں اور اس کی سختی سے پیروی کریں۔

تقریبا 70 سال قبل آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ انتخابی کمشنرز کی تقرری کے لیے ایک علیٰحدہ نظام اپنایا جائے، تاکہ تنازع کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ آج تک کسی نے بھی ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ نوین چاولہ معاملے میں سب نے دیکھا کہ الیکشن کمیشن نے کس حد تک جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اندر کی جانکاری باہری لوگوں کو دی ہے۔ الیکشن کمشنر لواسا کے معاملے میں بھی سب کو معلوم ہے کہ کیا ہوا تھا۔ لواسا نے وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کو کلین چٹ دینے والے معاملے میں اپنی الگ رائے دی تھی۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

ان آئینی عہدوں کا فضل تب ہی بڑھتا ہے جب اس عہدے پر بیٹھا فرد پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرتا ہے اور کسی بھی حالت میں اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وزیر اعظم ، چیف جسٹس اور اپوزیشن لیڈر سے بنی ایک کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے۔ سینئر بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے بھی اس کی تجویز پیش کی۔ لیکن خود بی جے پی بالکل بدل چکی ہے۔ اس تجویز سے متعلق ایک درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

جمہوریت کی بنیاد عوام کے اعتماد پر منحصر ہے۔ عوام کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جو نظام عوام کی نمائندگی کرتا ہے وہ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ عوام کا اعتماد نہیں توڑا جانا چاہیے، اس کے لیے ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری متفقہ طور پر ایک خصوصی کمیٹی کے ذریعہ کی جائے اور کمیشن کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔

بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ان باتوں پر توجہ دینے والا آج کوئی موجود نہیں ہے، جب انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ انتخابات میں غلط طریقے سے حاصل کی گئی جیت کو فتح کے نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔

سیاسی جماعتوں کے ذریعہ قوانین کی متواتر خلاف ورزی جمہوری اقدار کو گہری چوٹ پہنچا رہی ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے دوران اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ بنگال میں پانچویں، چھٹے، ساتویں اور آٹھویں مرحلے کے انتخابات ابھی باقی ہیں۔ تمل ناڈو، پڈوچیری، کیرالہ اور آسام میں اسمبلی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال انتخابات کے حوالے سے پہلے ہی اندیشے ظاہر کر دیئے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ 6400 پولنگ مراکز کی نشاندہی کر لی گئی ہے جہاں گڑبڑی ہونے کے امکان ہیں۔ لہذا یہاں مرکزی دستوں کی مضبوطی کے ساتھ تعیناتی کی جائے گی۔ لیکن انتخابی ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے کمیشن کی ساکھ داؤ پر لگ گئی۔ بی جے پی نے سنہ 2016 میں تین سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے بی جے پی یہاں پر پورا دم خم آزما رہی ہے۔

بی جے پی ہر حال میں ٹی ایم سی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اس سیاسی لڑائی میں ضابطۂ اخلاق سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ممتا بنرجی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے کہ وہ بی جے پی تشکیل کردہ 'پدمویہو' کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔

ممتا الزام لگا رہی ہیں کہ ان کے تئیں کمیشن کا رویہ سخت ہے، لیکن بی جے پی قائدین کے ساتھ نرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا نے طنزیہ انداز میں کمیشن کے ایم سی سی کو 'مودی ضابطۂ اخلاق' کے نام سے مخاطب کیا۔ اس معاملے سے متعلق کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھانا جمہوریت کے لیے خوش کن بات نہیں ہے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ایم ایس گل نے اپنے معیاد کے دوران کہا تھا کہ تمام تسلیم شدہ جماعتیں اپنے لیے آئینی اخلاقیات کا دائرہ خود ہی کھینچیں اور اس کی سختی سے پیروی کریں۔

تقریبا 70 سال قبل آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ انتخابی کمشنرز کی تقرری کے لیے ایک علیٰحدہ نظام اپنایا جائے، تاکہ تنازع کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ آج تک کسی نے بھی ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ نوین چاولہ معاملے میں سب نے دیکھا کہ الیکشن کمیشن نے کس حد تک جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اندر کی جانکاری باہری لوگوں کو دی ہے۔ الیکشن کمشنر لواسا کے معاملے میں بھی سب کو معلوم ہے کہ کیا ہوا تھا۔ لواسا نے وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کو کلین چٹ دینے والے معاملے میں اپنی الگ رائے دی تھی۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

ان آئینی عہدوں کا فضل تب ہی بڑھتا ہے جب اس عہدے پر بیٹھا فرد پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرتا ہے اور کسی بھی حالت میں اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وزیر اعظم ، چیف جسٹس اور اپوزیشن لیڈر سے بنی ایک کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے۔ سینئر بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے بھی اس کی تجویز پیش کی۔ لیکن خود بی جے پی بالکل بدل چکی ہے۔ اس تجویز سے متعلق ایک درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

جمہوریت کی بنیاد عوام کے اعتماد پر منحصر ہے۔ عوام کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جو نظام عوام کی نمائندگی کرتا ہے وہ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ عوام کا اعتماد نہیں توڑا جانا چاہیے، اس کے لیے ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری متفقہ طور پر ایک خصوصی کمیٹی کے ذریعہ کی جائے اور کمیشن کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔

Last Updated : Apr 15, 2021, 1:09 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.