دی کواڈریلیٹرل سیکورٹی ڈائیلاگ (بھارت – امریکہ – آسٹریلیا – جاپان کا مشاورتی فورم)، جسے عام طور سے کواڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے، اصل میں آسٹریلیا، بھارت، امریکہ اور جاپان کو یک جٹ کرنے کی حکمت عملی کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ ایک مثبت نظریے کا حامل یہ فورم سال 2004ء میں سونامی کے متاثرین کی مدد کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ سال 2007 تک غیر فعال رہا۔ تاہم انڈو پیسفک (بحر الکاہل خطہ) میں چین کی جارحیت کواڈ کے متحرک ہوجانے کا سبب بنا۔ سال 2017 کے بعد (متذکرہ چار ممالک کے مابین) مختلف سطحوں پر صلاح و مشوروں کے نتیجے میں حکمت عملی کا حامل یہ فورم موثر ہوگیا۔
چار ممالک کے سربراہوں کے مشترکہ اعلامیہ میں گو کہ چین کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اعلامیہ کا مقصد صاف طور پر ظاہر کیا گیا۔ وزیر اعظم مودی نے کواڈ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورم بھارت کے اپنے فلسفے 'واسودیوا کٹم بکم' (اس فلسفے کی رو سے تمام مخلوق کو ایک خاندان سمجھا جاتا ہے) کا عکاس ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورونا ویکیسن، موسمیاتی تغیر اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے متعلق بھارت کے اقدامات کے مثبت اثرات پورے کرہ ارض پر مرتب ہونگے۔
کواڈ سے جڑے ممالک کے سربراہوں کے مشترکہ اعلامیہ میں کووِڈ 19 سے متعلق باہمی تعاون، موسمیاتی تغیر اور جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے ایکشن ٹیمز کو قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب چین ویکیسن کی 46. 3 کروڑ خوراک تقسیم کرنے کی تیاری کررہا ہے، کواڈ انڈو پیسفک خطے میں واقع 24 ممالک میں ویکسین کی 100 کروڑ خوراکیں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ منصوبے کے مطابق اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے امریکہ کی جانب سے ماہرانہ تعاون، جاپان اور امریکہ کی مشترکہ مالی معاونت اور آسٹریلیا کی جانب سے ٹرانسپورٹیشن سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ بھارت نے ویکسین کی یہ 100 کروڑ خوراکیں تیار کرنے کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔ کواڈ نے یہ عہد کیا کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی سے جڑی ترقی کو چاروں ممالک کے مفادات کے لیے تحفظ فراہم کرنے کے مقصد کو یقینی بنایا جائے گا۔ کواڈ یقینی طور پر طاقت ور چین کی جانب سے لاحق معاشی، تجارتی اور عسکری خطرات سے نمٹنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
بھارت واحد نان نیٹو (جو شمالی اٹلانٹک معاہدہ تنظیم کا رُکن نہیں ہے) ملک ہے، جو کاڈ فورم کا رکن ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان ایک لمبی سرحد موجود ہے اور دونوں ممالک کئی سرحدی تنازعات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ یہ تنازعات ابھر گئے ہیں کیونکہ چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر کاربند ہے اور اس نے پڑوسی ممالک کے ساتھ جھگڑے مول لینا شروع کردیا ہے۔ وہ ڈینگ زی پنگ (ماؤزے تنگ کے بعد آنے والے اہم چینی حکمران) کے دانشورانہ مشورے، جس میں اُنہوں نے تاکید کی تھی کہ چین کو اپنی قوت ایک تناسب میں رکھتے ہوئے نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہا ہے۔ چین کے سپریم لیڈر زی جن پنگ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی ایک نیا پنچ شیل (معاہدہ) کرنے پر زور دیا تھا۔ تاہم جب بھارت نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کا حصہ بننے سے انکار کیا تو اُن کا رویہ تبدیل ہوگیا۔ چین نے سال 2017 میں کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈوکلام تنازع پیدا کیا۔ ایک جانب ووہان اور مہا بلی پورم میں گرم جوشی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا لیکن دوسری جانب اس نے لداخ میں بھارت کے ساتھ لڑائی چھیڑ دی۔ چین کی 14 ممالک کے ساتھ 22 ہزار کلو میٹر پر محیط سرحد جاملتی ہے اور ان تمام 14 ممالک کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں۔
چین اروناچل پردیش پر بھی اپنا دعویٰ جتلا رہا ہے۔ اس نے میانمار، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور پاکستان میں اپنے بحری اڈے قائم کرلئے ہیں اور اس طرح سے وہ بھارت کے گرد دُشمنی کا حصار بنائے ہوئے ہے۔
اس کا اصرار ہے کہ ساوتھ چینا سمندر پر اس کے مکمل حقوق ہیں اور اس نے سمندر میں مصنوعی جزیرے بناتے ہوئے یہاں اپنے فوجی اڈے بھی قائم کر لئے ہیں۔ اس ضمن میں اس نے انٹرنیشنل ٹریبیونل کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔
بیجنگ کی زیادتیوں کے پیش نظر کواڈ فورم کا قائم ہوجانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ چین نے کواڈ کو شمالی اٹلانٹک معاہدہ تنظیم (نیٹو) کے طرز کا فورم قرار دیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت برکس اور شنگہائی کاپوریشن آرگنائزیشن جیسے فورمز میں بطور رکن ملک ایک منفی فورس بنا ہوا ہے۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ کواڈ کے لئے ایک مضبوط تعاون کا حامل ملک بن جائے اور اس فورم کو جمہوری ممالک کے اتحاد میں تبدیل کرے تاکہ چین کی حرکتوں پر نظر رکھی جاسکے۔