جگر مراد آبادی 6 اپریل 1890 میں اترپردیش کے شہر مراد آباد میں پیدا ہوئے جو انگریزوں کے دوراقتدار میں بنارس اسٹیٹ میں واقع بنارس کہلاتا تھا۔ آپ کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دنوں ہی شاعر تھے۔ جگر کے والد خواجہ وزیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔ جگر مرادآبادی کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔
جگر نے اردو، عربی اور فارسی میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد 'ٹریولیلنگ سیلس مین' کے طور پر کام کرنے لگے۔ اس دوران وہ گونڈہ چلے گئے جہاں ان کی ملاقات اصغر گونڈوی سے ہوئی۔ اصغر گونڈوی نے ان کی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور ان کو سنبھالا مگر سفر، شاعری اور شراب نوشی نے جگر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ازدواجی زندگی بھی کام نہ آئی۔
جگر نے کبھی اپنی شراب نوشی پر فخر نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اس دور کو جہالت کہتے رہے اور ایک دن آیا کہ جگر نے شراب نوشی کو ترک کر دیا اور سنہ 1953 میں جگر نے حج کی سعادت حاصل کی۔
جگر نے تمام شعراء کی فکر سے استفادہ کیا۔ جگر حسن و عشق کو برابر کا درجہ دیتے تھے۔ جگر کے نزدیک حسن اور عشق دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ اردو کے ممتاز شاعر فیض احمد فیض، جگر مراد آبادی کو اپنے شعبے کا استاد شاعر قرار دیتے تھے۔ جگر کے شاگردوں میں مجروح سلطانپوری شامل ہیں۔ مجروح سلطانپوری بھارتی سنیما کے ایک نامور نغمہ نگار تھے اور انہوں نے اردو میں کئی مشہور زمانہ نغمے تحریر کئے۔
جگر مرادآباد کی نظم 'یہ ہے میکدہ' کو کئی معروف صوفی سنگر نے اپنی پُرترنم آواز میں گایا۔ ان صوفی سنگرز میں صابری برادرز، عزیز میاں، منی بیگم اور عطاءاللہ خان نیازی کا نام قابل ذکر ہے۔
جگر مرادآبادی کو سنہ 1958 میں 'آتش گل' کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا اور وہ علامہ اقبال کے بعد دوسرے ایسے شاعر تھے جنہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذریعے اعزازی ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔
جگر مراد آبادی نے 9 ستمبر 1960 میں 70 برس کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
جگر مرادآباد کے چند اشعار پیش ہیں:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا۔