ETV Bharat / bharat

وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے احتیاطی اقدامات ناگزیر

author img

By

Published : Apr 21, 2021, 9:18 PM IST

کووِڈ وبا کی دوسری لہر سے متعلق طرح طرح کے خدشات اور سوالات کا جواب جاننے کے لئے ای ٹی وی بھارت نے تامل ناڈو کے شہر ویلور کے وائرالوجسٹ سی ایم سی، گنگادیپ کونگ سے تفصیلی بات چیت کی۔

Precautionary measures
حتیاطی اقدامات

ذیل میں قارئین کے لئے اس انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:

سوال: کووِڈ وبا کی پہلی لہر کے مقابلے میں دوسری لہر کے دوران متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بھارت اس لہر کو کیسے قابو کرپائے گا؟ یہ لہر کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس لہر کے دوران متاثرین کی تعداد روزانہ چار لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں آپ کی کیا رائے؟

جواب: دوسری لہر کے دوران ملک بھر میں متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ ایک یہ ہے کہ پہلی لہر کے مقابلے میں اس بار ہم احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری لہر کے دوران جو وائرس پھیل رہا ہے، وہ پہلے وائرس کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہے۔ چونکہ ہم فوری طور پر سب کو ٹیکے نہیں لگوا سکتے ہیں، اس کے لئے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہ آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی کوالٹی کی ماسک پہنیں، جسمانی دوریاں بنائے رکھیں اور جب گھروں کے اندر ہوں تو یقینی بنائیں کہ ہوا دار ماحول ہو۔ دوسری لہر بہت خطرناک ہے کیونکہ اگر بڑے پیمانے پر لوگ وائرس کا شکار ہوگئے اور ان میں سے ایک قلیل تعداد کی حالت بھی زیادہ خراب ہو، تب بھی یہ ہمارے طبی انفراسٹکچر کے لئے ایک بہت بڑا دباو ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر ہم کوئی تدارک نہ کرپائے تو کووِڈ کی یہ لہر بہت تیزی سے پھیلے گی۔ تاہم خوش قسمتی سے ملک کی مختلف ریاستوں نے اب لوگوں کی نقل و حرکت پر قدغن لگانا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے مجھے اُمید ہے کہ روزانہ چار لاکھ تک لوگوں کے متاثر ہو جانے کا تخمینہ غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔

سوال: ہم نے ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت بلند بانگ دعوے کیے لیکن اب عملی طور پر ہمیں ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال کیسے پیدا ہوگئی؟

جواب: اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت میں اگرچہ ویکسین تیار کرنے کی کافی صلاحیت ہے لیکن اس کے لئے درکار خام مال ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ ہمیں یہ مال حاصل کرنے کے لئے عالمی سپلائی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہر ملک اس خام مال کے حصول میں لگا ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ ویکسین تیار کرنے والے اداروں نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ وہ کتنی مقدار میں ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پایا ہے اور نتیجے کے طور پر ہمیں ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تیسرا یہ کہ ویکسین تیار کرنے والے ادارے جانتے ہیں کہ اُن کے پاس مال سپلائی کے لئے مارکیٹ موجود ہے اور وہ اس میں سے کچھ مال کو ایکسپورٹ کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے ہیں، اس لئے اُنہیں وافر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر اس حوالے سے کسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو، جیسے کہ حکومت کی طرف سے کم قیمت پر مختصر وقت میں مال کی ڈیمانڈ ہو، تو اس صورت میں متعلقہ کمپنیوں کو کام چلانے میں کافی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ناسک: آکسیجن ٹینک لیک ہونے سے 22 مریض ہلاک

سوال: کیا اس سال وائرس کے حوالے سے بےتحاشا ریسرچ کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ یہ پیش گوئی کر پائیں کہ مستقبل میں اس وائرس کا رویہ کیا ہوگا؟ اور کیا ہم اس سے نمٹنے کے حوالے سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ مضبوط ہیں؟

جواب: پچھلے سال ہم نے اس وائرس کے حوالے سے کافی معلومات حاصل کرلی ہیں اور ہمارے پاس اب کافی حد یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم مستقبل میں اس وائرس کے رویے کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرسکیں۔ دیگر وائرسز کی طرح یہ وائرس بھی پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس طرح سے اس کے پھیلاو میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرے گا اور ویکسین کی وجہ سے قوتِ مدافعت حاصل کرنے والے لوگوں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ممکن ہے کہ اس وائرس کی مختلف اقسام کو ہم آنے والے دو سال تک دیکھیں۔ جبکہ اس دوران اس کی ہئیت میں کچھ تبدیلی آنے کی وجہ سے اس کے اثرات زیادہ مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم جو وائرس انسان کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ زیادہ آسانی کے ساتھ نہیں پھیلتا ہے۔ اس لئے ہمیں اُمید ہے کہ اس کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوگا۔

سوال: دوسری لہر کے دوران لاک ڈاون کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ کیا ہماری معیشت اور ہمارے سیاسی حالات لاک ڈاون نانذ کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومت وائرس کو قابو کرنے کے حوالے سے مناسب اقدامات کررہی ہے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں لاک ڈاون جیسے اقدامات کے بجائے کچھ نیا کرنا ہوگا۔ لاک ڈاون ایک سخت اقدام ہے۔ ہم سماجی اور معاشی نقل و حرکت کو روکے بغیر بھی کچھ بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔

سوال: بھارت میں پایا جانے والا وائرس کس نوعیت کا ہے؟ یہ کس شدت سے اثر انداز ہوسکتا ہے؟

جواب: جس قسم کا وائرس بھارت میں پایا جارہا ہے، اس کے بارے میں ابھی زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ انفیکشن نہیں پھیلا سکتا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا اس کی وجہ سے کوئی سیریس قسم کا انفیکشن پھیل سکتا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ ہمیں اس وبا کے بارے میں مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس وائرس کے رویے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کر پائیں۔ اگرچہ ہم اس ضمن میں کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں، جہاں اس کے تدارک کے لئے کوئی حتمی علاج ڈھونڈ سکیں۔

سوال: ریاستی حکومتوں کو اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ لوگوں اور اُن کے لیڈروں کی اس وقت کیا ذمہ داری ہے؟ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کون سے اقدامات کرنے ہوں گے اور کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟

جواب: ریاستی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ صحت عامہ کے ساتھ کوئی کمپرومائز کئے بغیر ناگزیر نقل و حرکت اور معاشی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ سیر و تفریح، سیاسی جلسے اور مذہبی تقریبات، جن کا انعقاد ہم نے حالیہ ایام میں دیکھا ہے اور جن کی وجہ سے بھیڑ بھاڑ دیکھنے کو ملی، وائرس کے پھیلاو کا سبب ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ آیا اُنہیں نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس طرح کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں۔

سوال: ابھی تک ہم نے دس فیصد لوگوں کی ٹیکہ کاری بھی نہیں کی ہے۔ لوگوں کو ویکسین لگوانے کا عمل تیز کرنے کے لئے کیا کیا جانا چاہیے؟

جواب: ہمیں لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ویکسین لگوانا کیوں ضروری ہے اور اس سے کتنا فائدہ ہوگا۔ ہم اس ضمن میں اسرائیل کی مثال مد نظر رکھنی چاہیے کہ جب آبادی کے بڑے طبقے کو ویکسین لگوایا جاتا ہے تو اس سے عوامی صحت عامہ کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو اُن قدغنوں سے نجات حاصل ہوگی، جن کا سامنا اُنہیں اس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔

سوال: وائرس کے پھیلاو کو روکنے میں ویکسین کتنا معاون ثابت ہوگا؟

جواب: فی الوقت ہماری توجہ ویکسین کے ذریعے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی طرف نہیں ہے بلکہ اس کی بدولت قوتِ مدافعت بڑھانے کی طرف ہے تاکہ لوگوں کی غالب آبادی وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں سے بچیں اور اموات کی شرح کم ہو۔ جب ہم ملک کی مجموعی آبادی کے تیس فیصد کو ویکسین لگوائیں گے تو اس کے بعد ہی ہم یہ دیکھیں گے کہ اس کی وجہ سے وائرس پھیلنے میں کتنی روک تھام ہوگئی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ویکسین سے ملنے والا تحفظ کتنا دیر پا ثابت ہوتا ہے اور ہم کتنا جلدی اپنی آبادی کو ویکسین لگوا ئیں گے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔

سوال: وبا کی یہ لہر کتنی دیر جاری رہ سکتی ہے؟

جواب: عام طور پر اس طرح کی لہر کو شروع ہوجانے سے لیکر اختتام پذیر ہوجانے تک تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ ابھی تک تقریباً دو ماہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس لہر کے عروج تک پہنچنے اور پھر کم ہو جانے کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ خاص طور سے اگر ہم نقل و حرکت محدود کریں، جو کرنا ہم نے شروع کردیا ہے، تو ہم بہت جلد راحت پالیں گے۔

سوال: کووِڈ کی اس دوسری لہر کا سبب کیا ہے؟

جواب: یہ بالکل ویسی ہی ہے، جیسی پہلی لہر تھی۔

ذیل میں قارئین کے لئے اس انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:

سوال: کووِڈ وبا کی پہلی لہر کے مقابلے میں دوسری لہر کے دوران متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بھارت اس لہر کو کیسے قابو کرپائے گا؟ یہ لہر کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس لہر کے دوران متاثرین کی تعداد روزانہ چار لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں آپ کی کیا رائے؟

جواب: دوسری لہر کے دوران ملک بھر میں متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ ایک یہ ہے کہ پہلی لہر کے مقابلے میں اس بار ہم احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری لہر کے دوران جو وائرس پھیل رہا ہے، وہ پہلے وائرس کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہے۔ چونکہ ہم فوری طور پر سب کو ٹیکے نہیں لگوا سکتے ہیں، اس کے لئے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہ آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی کوالٹی کی ماسک پہنیں، جسمانی دوریاں بنائے رکھیں اور جب گھروں کے اندر ہوں تو یقینی بنائیں کہ ہوا دار ماحول ہو۔ دوسری لہر بہت خطرناک ہے کیونکہ اگر بڑے پیمانے پر لوگ وائرس کا شکار ہوگئے اور ان میں سے ایک قلیل تعداد کی حالت بھی زیادہ خراب ہو، تب بھی یہ ہمارے طبی انفراسٹکچر کے لئے ایک بہت بڑا دباو ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر ہم کوئی تدارک نہ کرپائے تو کووِڈ کی یہ لہر بہت تیزی سے پھیلے گی۔ تاہم خوش قسمتی سے ملک کی مختلف ریاستوں نے اب لوگوں کی نقل و حرکت پر قدغن لگانا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے مجھے اُمید ہے کہ روزانہ چار لاکھ تک لوگوں کے متاثر ہو جانے کا تخمینہ غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔

سوال: ہم نے ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت بلند بانگ دعوے کیے لیکن اب عملی طور پر ہمیں ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال کیسے پیدا ہوگئی؟

جواب: اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت میں اگرچہ ویکسین تیار کرنے کی کافی صلاحیت ہے لیکن اس کے لئے درکار خام مال ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ ہمیں یہ مال حاصل کرنے کے لئے عالمی سپلائی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہر ملک اس خام مال کے حصول میں لگا ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ ویکسین تیار کرنے والے اداروں نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ وہ کتنی مقدار میں ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پایا ہے اور نتیجے کے طور پر ہمیں ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تیسرا یہ کہ ویکسین تیار کرنے والے ادارے جانتے ہیں کہ اُن کے پاس مال سپلائی کے لئے مارکیٹ موجود ہے اور وہ اس میں سے کچھ مال کو ایکسپورٹ کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے ہیں، اس لئے اُنہیں وافر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر اس حوالے سے کسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو، جیسے کہ حکومت کی طرف سے کم قیمت پر مختصر وقت میں مال کی ڈیمانڈ ہو، تو اس صورت میں متعلقہ کمپنیوں کو کام چلانے میں کافی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ناسک: آکسیجن ٹینک لیک ہونے سے 22 مریض ہلاک

سوال: کیا اس سال وائرس کے حوالے سے بےتحاشا ریسرچ کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ یہ پیش گوئی کر پائیں کہ مستقبل میں اس وائرس کا رویہ کیا ہوگا؟ اور کیا ہم اس سے نمٹنے کے حوالے سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ مضبوط ہیں؟

جواب: پچھلے سال ہم نے اس وائرس کے حوالے سے کافی معلومات حاصل کرلی ہیں اور ہمارے پاس اب کافی حد یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم مستقبل میں اس وائرس کے رویے کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرسکیں۔ دیگر وائرسز کی طرح یہ وائرس بھی پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس طرح سے اس کے پھیلاو میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرے گا اور ویکسین کی وجہ سے قوتِ مدافعت حاصل کرنے والے لوگوں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ممکن ہے کہ اس وائرس کی مختلف اقسام کو ہم آنے والے دو سال تک دیکھیں۔ جبکہ اس دوران اس کی ہئیت میں کچھ تبدیلی آنے کی وجہ سے اس کے اثرات زیادہ مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم جو وائرس انسان کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ زیادہ آسانی کے ساتھ نہیں پھیلتا ہے۔ اس لئے ہمیں اُمید ہے کہ اس کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوگا۔

سوال: دوسری لہر کے دوران لاک ڈاون کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ کیا ہماری معیشت اور ہمارے سیاسی حالات لاک ڈاون نانذ کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومت وائرس کو قابو کرنے کے حوالے سے مناسب اقدامات کررہی ہے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں لاک ڈاون جیسے اقدامات کے بجائے کچھ نیا کرنا ہوگا۔ لاک ڈاون ایک سخت اقدام ہے۔ ہم سماجی اور معاشی نقل و حرکت کو روکے بغیر بھی کچھ بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔

سوال: بھارت میں پایا جانے والا وائرس کس نوعیت کا ہے؟ یہ کس شدت سے اثر انداز ہوسکتا ہے؟

جواب: جس قسم کا وائرس بھارت میں پایا جارہا ہے، اس کے بارے میں ابھی زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ انفیکشن نہیں پھیلا سکتا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا اس کی وجہ سے کوئی سیریس قسم کا انفیکشن پھیل سکتا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ ہمیں اس وبا کے بارے میں مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس وائرس کے رویے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کر پائیں۔ اگرچہ ہم اس ضمن میں کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں، جہاں اس کے تدارک کے لئے کوئی حتمی علاج ڈھونڈ سکیں۔

سوال: ریاستی حکومتوں کو اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ لوگوں اور اُن کے لیڈروں کی اس وقت کیا ذمہ داری ہے؟ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کون سے اقدامات کرنے ہوں گے اور کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟

جواب: ریاستی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ صحت عامہ کے ساتھ کوئی کمپرومائز کئے بغیر ناگزیر نقل و حرکت اور معاشی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ سیر و تفریح، سیاسی جلسے اور مذہبی تقریبات، جن کا انعقاد ہم نے حالیہ ایام میں دیکھا ہے اور جن کی وجہ سے بھیڑ بھاڑ دیکھنے کو ملی، وائرس کے پھیلاو کا سبب ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ آیا اُنہیں نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس طرح کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں۔

سوال: ابھی تک ہم نے دس فیصد لوگوں کی ٹیکہ کاری بھی نہیں کی ہے۔ لوگوں کو ویکسین لگوانے کا عمل تیز کرنے کے لئے کیا کیا جانا چاہیے؟

جواب: ہمیں لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ویکسین لگوانا کیوں ضروری ہے اور اس سے کتنا فائدہ ہوگا۔ ہم اس ضمن میں اسرائیل کی مثال مد نظر رکھنی چاہیے کہ جب آبادی کے بڑے طبقے کو ویکسین لگوایا جاتا ہے تو اس سے عوامی صحت عامہ کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو اُن قدغنوں سے نجات حاصل ہوگی، جن کا سامنا اُنہیں اس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔

سوال: وائرس کے پھیلاو کو روکنے میں ویکسین کتنا معاون ثابت ہوگا؟

جواب: فی الوقت ہماری توجہ ویکسین کے ذریعے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی طرف نہیں ہے بلکہ اس کی بدولت قوتِ مدافعت بڑھانے کی طرف ہے تاکہ لوگوں کی غالب آبادی وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں سے بچیں اور اموات کی شرح کم ہو۔ جب ہم ملک کی مجموعی آبادی کے تیس فیصد کو ویکسین لگوائیں گے تو اس کے بعد ہی ہم یہ دیکھیں گے کہ اس کی وجہ سے وائرس پھیلنے میں کتنی روک تھام ہوگئی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ویکسین سے ملنے والا تحفظ کتنا دیر پا ثابت ہوتا ہے اور ہم کتنا جلدی اپنی آبادی کو ویکسین لگوا ئیں گے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔

سوال: وبا کی یہ لہر کتنی دیر جاری رہ سکتی ہے؟

جواب: عام طور پر اس طرح کی لہر کو شروع ہوجانے سے لیکر اختتام پذیر ہوجانے تک تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ ابھی تک تقریباً دو ماہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس لہر کے عروج تک پہنچنے اور پھر کم ہو جانے کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ خاص طور سے اگر ہم نقل و حرکت محدود کریں، جو کرنا ہم نے شروع کردیا ہے، تو ہم بہت جلد راحت پالیں گے۔

سوال: کووِڈ کی اس دوسری لہر کا سبب کیا ہے؟

جواب: یہ بالکل ویسی ہی ہے، جیسی پہلی لہر تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.