نیپال کے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہوئے 75 سالہ شیر بہادر دیوبا پانچویں بار وزیراعظم کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ نیپال کے صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے نیپالی سپریم کورٹ کی آئین بنچ کے پیر کے حکم کی تعمیل میں آئین کے آرٹیکل 76 (5) کے تحت یہ اقدام اٹھایا ہے۔
دیوبا نے اتوار کے روز 275 اراکین والے ایوان میں 165 ووٹ حاصل کیے۔ پارلیمنٹ کا اعتماد جیتنے کے لئے دیوبا کومجموعی طور پر 136 ووٹ درکار تھے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے شیر بہادر دیوبا کی اس کامیابی پر دلی مبارکباد پیش کی ہے۔
وزیراعظم مودی نے ٹویٹ کرتے ہوئےلکھا کہ ' وزیراعظم بننے پر شیر بہاد دیوبا کو مبارکباد اور اس کامیاب مدت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ تمام شعبوں میں ہماری اس انوکھی شراکت داری کو مزید فروغ دینے اور دونوں ملک کے عوام کے درمیان گہرے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہوں۔'
مودی کے اس ٹوئیٹ کے بعد شیر بہادر دیوبا نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا ہے۔
انہوں نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'وزیراعظم نریندر مودی جی مبارکباد دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں بھارت ۔نیپال اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے حوالے سے کام کرنے کو لے کر پرجوش ہوں'۔
واضح رہے کہ 13 جولائی کو نیپال کے صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے نیپال کانگریس کے صدر شیر بہادر دیوبا کو ملک کا نیا وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔
دیوبا پانچویں بار نیپال کے وزیراعظم بنے ہیں۔ دیوبا کو کو پی شرما اولی کی جگہ پر وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے۔
آپ کو بتادیں کہ صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی سفارش پر 22 مئی کو پانچ ماہ میں دوسری بار ایوان زریں تحلیل کردی تھیں اور 12 نومبر اور 19 نومبر کو وسط مدتی انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم اولی نے آئین کے آرٹیکل 76 (5) کے مطابق دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لئے اپنی پارٹی سی پی این-یو ایم ایل کے 121 ممبران اور جنتا سماج وادی پارٹی نیپال (جے ایس پی-این) کے 32 ممبران کی حمایت کے دعوے کا ایک خط پیش کیا تھا۔
جبکہ نیپالی کانگریس کے صدر شیر بہادر دیوبا نے 149 ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
نیپال میں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سبکدوش وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی سفارش پر پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے صدر ودیا دیوی بھنڈاری کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔ چیف جسٹس چولندر شمشیر رانا کی سربراہی میں پانچ ججوں کے آئین بنچ نے پارلیمنٹ کی تحلیل کے خلاف دائر رٹ پٹیشن کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے بعد صدر بھنڈاری نے اتوار کے روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس طلب کیا تھا۔ پارلیمنٹ کے ایوان زریں میں حکمراں جماعت نیپالی کانگریس (این سی) کے 61 ارکان ہیں جبکہ اس کے اتحادی پارٹنر سی پی این (ماؤسٹ سینٹر) کے اسپیکر سپکوٹا کو چھوڑ کر 48 ارکان ہیں۔ ایوان زریں میں حزب اختلاف جماعت سی پی این - یو ایم ایل کے 121 ارکان ہیں، جو اولی کی پارٹی ہے۔ جے ایس پی کے 32 ارکان اور باقی تین جماعتوں میں سے ایک ایک رکن ایوان زریں ہیں۔ ایک آزاد قانون ساز بھی ہے۔
نیپالی کانگری ، سی پی این ماؤسٹ سینٹر اور جنتا سماج آبادی پارٹی نیپال کے قانون سازوں نے دیوبا کے حق میں ووٹ دیا۔ جے ایس پی (ن) کے ٹھاکر مہتو دھڑے نے بھی آخری لمحے میں دیوبا کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیوبا کی فتح یقینی ہونے کے بعد یو ایم ایل کے ایک درجن سے زائد اراکین ایوان سے باہر چلے گئے۔ تاہم باقی 22 اراکین پارلیمان جن میں خود مادھو کمار نیپال بھی شامل ہیں ، نے دیوبا کو ووٹ دیا۔
دلچسپ بات یہ رہی ہے کہ اولی کی حمایت کرنے والے 8 اراکین پارلیمان نےبھی دیوبا کے حق میں ووٹ ڈالے۔بالآخر حزب اختلاف پارٹی کے تقریبا 30 قانون سازوں نے اپنی پارٹی کی خواہش کے خلاف دیوبا کے حق میں ووٹ ڈالا۔
سابق وزیر اعظم اور نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما (یونیفائیڈ مارکسیٹ لیننسٹ) جھلناتھ کھنال ، جو نئی دہلی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں ، نے ایک پارٹی بیان جاری کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے اراکین سے کہا تھا کہ وہ دوبا کے حق میں ووٹ دیں۔
دیوبا کی اس جیت کے بعد وہ انتخابات منعقد ہونے تک سال یا ڈیڑھ سال کے لیے وزیراعظم کی کرسی سنبھالیں گے۔
گزشتہ سال سے نیپال سیاسی بحران کا شکار ہے، جب 20 دسمبر کو صدر بھنڈاری نے وزیراعظم اولی کی شفارش پر ایوان کو تحلیل کرتے ہوئے 30 اپریل اور 10 مئی کو تازہ انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن عدالت عظمی نے بھنڈاری کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سب کو حیران کردیا۔