جموں و کشمیر میں مطلوبہ امن کا حصول ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ بہت سارے مسائل ہیں، ان امور کی پیچیدگیاں جموں و کشمیر کے عوام کو عسکریت پسندی کی وجہ سے پائیدار امن سے محروم کرتی ہیں اور بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہیں۔
سنہ 2019 کے اگست ماہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا اور سابق ریاست کو دو منقسم خطوں میں تبدیل کر کے مرکز کے زیر انتطام لایا گیا۔ حکومت کے اس اقدام کو جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتوں اور عوام نے ان کے ساتھ بی جے پی کی جانب سے کی گئی غداری سمجھا۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد مرکزی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرنے والے سیاسی رہنماوں کی گرفتاریوں کا سیاسی ڈرامہ دیکھا گیا اور خطے میں امن کی بحال کے دعوے بھی کیے گئے۔ جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماوں کی جانب سے حکومت کے اس قدم کو جمہوریت کی روح کو نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھا گیا اور اسے واپس نافذ کرنے کی بات کہی گئی۔ لیکن حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماوں سے ملاقات حیرت انگیز تھی۔
وزیر اعظم نے 24 جون کو جموں و کشمیر سے متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماوں کے ساتھ بھروسے کی ایک بنیاد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔
اس ملاقات کو جموں و کشمیر اور نئی دہلی کے مابین اعتماد کے خسارے کو دور کرنے کے لیے ایک قدم تسلیم کیا جارہا تھا، لیکن 27 جون کو جموں ایئر فورس اسٹیشن پر ڈرون حملے کے بعد کل جماعتی اجلاس چلینجز کا شکار ہو گیا ہے۔
ڈائرکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے ایئر فورس اسٹیشن پر ہوئے اس حملے کو اپنی نوعیت کی پہلی عسکری کارروائی بتایا ہے۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے اس حملے کے بعد جموں و کشمیر میں پائیدار امن کے حصول سے وابستہ مشکلات کو سمجھنے میں اہم مشغولیت ہیں۔
مرکزی حکومت جموں و کشمیر سے دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے اپنے فیصلے کو عسکریت پسندی کے خاتمے کے طور پر جائز ٹہرا رہی ہے اور اس کا ثبوت ہمارے سامنے موجود ہے۔ جموں و کشمیر کو دو منقسم خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے متعدد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے اور کئی عسکریت پسندوں نے قومی دھارے میں واپس آنے کے لیے ہتھیار بھی چھوڑیں ہیں۔ جس کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ خطے میں تشدد اور عسکریت پسندی میں کمی آئی ہے۔
تشدد اور عسکریت پسندی کی سطح میں کمی حکومتوں کے ذریعہ امن کے دعوے کرنے کا ایک بہت بڑا طریقہ رہا ہے۔ تاہم، متعدد پیچیدگیوں پر غور کرتے ہوئے امن کا دعوی کرنا مرکزی حکومت کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ ایسی پیچیدگیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم پاکستان کو اور علیحدگی پسند جماعتوں کے ساتھ بات چیت کریں یا نہ کریں۔
کہا جاتا ہے کہ ان دونوں فریق سے اگر بات کی جائے تو عسکریت پسندی میں کمی آسکتی ہے۔ لیکن ان دونوں فریقوں کو کنارے کیا جائے تو اس کا مطلب ہے عسکریت پسندی کو دعوت دینا۔ جس کی ایک مثال جموں ایئر فورس اسٹیشن پر میڈیا کی جانب سے بتائی گئی عسکری کارروائی ہے۔ محض تین دن بعد ہونے والا یہ حملہ ایک اچھی مثال ہے۔
حال ہی میں جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی علیحدگی پسند جماعتوں اور پاکستان سے بات کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کے اس بیان کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
Pulwama SPO Shot: ایس پی او، اہلیہ اور بیٹی سمیت ہلاک، جنوبی کشمیر میں کہرام
بھارت کے پڑوس میں جغرافیائی سیاسی پیشرفت کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ طالبان کی مستقل طور پر عروج کے بعد جب امریکہ کی فوجیں افغانستان سے انخلا کر رہی ہیں تو اس کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جموں و کشمیر میں بھی عسکریت پسند جماعتیں حکومت کے خلاف دوبارہ ابھر سکتی ہیں۔
لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) اور حزب المجاہدین (ایچ ایم) جیسی عسکریت پسند تنظیموں کے طالبان کے ساتھ رابطے جموں و کشمیر میں مؤخر الذکر کی تحریکوں کے سلسلے میں سنگین اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر قبضہ، پاکستان کی جانب سے دہشت گرد گروپس کی حمایت، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد خطے میں امن و امان کی بحالی کے لیے جاری اقدامات میں سب سے بڑی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں امن کا حصول کبھی بھی آسان نہیں رہا کیونکہ متعدد معاملات پر کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی نئی شکلوں اور رنگوں میں گھومتی رہتی ہے۔ موجودہ وقت میں چونکہ مرکزی حکومت نے سیاسی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھایا ہے، اب کسی رکاوٹ کے بغیر اس رفتار کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ سیاسی رہنماوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران جمہوری عمل کے ذریعے مکمل ریاست کی بحالی کی بات کہی ہے۔ اس لیے اب جمہوری طریقہ کار، مذاکرات اور عوام کے دل جیتنے سے ہی جنت میں امن و امان کے قیام کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔