گیا: ریاست بہار میں اقلیتی طبقے کی فلاح و بہبود سے متعلق سرکاری اسکیموں کے نفاذ میں تاخیر ہوتی ہے۔ اسکیمز کے نفاذ میں برسوں لگ جاتا ہے۔ یہ ان اسکمیوں کا حال ہوتا ہے جو تعمیراتی کام کے لئے ہوتی ہیں، جیسے اقلیتی اقامتی اسکول ، ملٹی پرپز بلڈنگ اور مدرسہ تجدیدکاری اسکیم۔ جس کے نفاذ کے برسوں بعد بھی مگدھ کمشنری کے کسی بھی ضلع میں کام نہیں ہوا ہے حالانکہ وہ اسکیمیں جسکی رقم مستفدین کے کھاتے میں بلاواسطہ جاتی ہیں۔ کسی حد تک وہ رقم متعینہ وقت پر مل جاتی ہیں اور انکا اوسطا نفاذ مالی سال کے ختم ہونے تک نوے سے پچانوے فیصد تک ہوتا ہے، جس میں وزیراعلیٰ اقلیتی طالبات اسکیم ہے جسکے تحت طلبہ و طالبات کو رقم دی جاتی ہے۔ Minority Schemes stalled for years says Maulana Umer Nooraani
اس حوالے سے سماجی رکن فیاض خان کہتے ہیں کہ ضلع میں وزیر اعلی اقلیتی اقامتی اسکول اور ملٹی پرپز بلڈنگ کی تعمیر کا منصوبہ پانچ سال پرانا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آج تک کاغذاتی کام بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔ اسکی وجہ ہے کہ زمین کی شناخت نہیں ہوسکی ہے، حکومت کی نیت کیا ہے ؟ یہ سمجھ سے پرے ہے کیونکہ اقلیتی اسکیموں میں کچھ شرائط ایسی ہوتی ہیں جو کبھی کبھی ناممکن ثابت ہوتی ہیں جیسے اقلیتی اقامتی اسکول کی تعمیر میں ایک بڑی شرط یہ ہے کہ اسکی تعمیر سنی وقف بورڈ کی زمین پر ہونی ہے اور یہ بہار میں نوے فیصد سے زیادہ اضلاع میں ممکن نہیں ہے کیونکہ ناجائز قبضے کی وجہ سے وقف کی زمین پر اتنا بڑا پلاٹ ملنا ناممکن ہے۔'
اس سلسلے میں جے ڈی یو کے صوبائی نائب صدر مولانا عمر نورانی نے کہا کہ انکی حکومت ان منصوبوں کو ضرور پورا کرے گی کیونکہ وزیراعلی نتیش کمار ہی ان اسکیموں کو منظوری دیتے ہیں جو ممکن ہوتا ہے۔ مسائل اور پیچیدگی کو دور کرکے ہی اقلیتی اسکیموں کو منظوری دی گئی ہے چونکہ وقف کی سابق کمیٹیوں اور حکومت نے وقف کی املاک کو خردبرد کردیا ہے، جسکی وجہ سے ایک جگہ پر اتنا بڑا پلاٹ ملنا مشکل ہے تاہم ناممکن نہیں ہے، حکومت اور وقف بورڈ وقف کی زمین سے قابضین کو ہٹانے کی کاروائی شروع ہے۔'
مزید پڑھیں:۔ CM Minority Employment Loan Scheme: گیا میں سی ایم اقلیتی روزگار قرض اسکیم کے تحت منعقدہ خصوصی کیمپ کا اختتام
واضح رہے کہ گیا میں مگدھ کمشنری کا ہیڈ آفس ہے اور یہ ریاست کے بڑے اضلاع میں ایک ہے۔ یہاں 2014 سے ملٹی پرپز بلڈنگ کی تعمیر کے منصوبہ کے لیے زمین تلاش کی جارہی ہے جبکہ یہی حال اقلیتی اسکول کا بھی ہے لیکن دونوں اسکیموں کے لیے کل پانچ ہیکٹیئر زمین دستیاب نہیں ہوسکی ہے۔ دونوں اسکیموں کے لیے شرط ہے کہ زمین وقف بورڈ کو دینی ہے جبکہ سرکاری منظور شدہ مدرسے میں مدرسہ تجدید کاری اسکیم کا فائدہ ملنا ہے لیکن ابھی تک سبھی منصوبے سرد پڑے ہیں۔'