عبدالاحد راہ اور اُن کی اہلیہ خدیجہ گزشتہ دو دہائیوں سے اپنے دو فرزند کی راہ تک رہے ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ بزرگ کئی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اب زندگی کے آخری ایام میں ان بزرگ والدین کی یہ تمنا ہے کہ اپنے لخت جگر کو ایک نظر دیکھ لیں۔
عبدالاحد کے دونون جوان بیٹے محمد شفیع راہ (30) اور مشتاق احمد راہ (25) نیپال میں ایک چمڑے کے کارخانے میں کام کرتے تھے۔ وہ سنہ 1995 میں سرینگر سے نیپال کے کٹھمنڈو روزگار کے لیے گئے تھے تاہم اُن کے بہتر زندگی کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکا۔ انڈین ائیرلائنز طیارے (IC-814)کے ہائی جیک ہونے کے بعد سنہ 2000 ستمبر مہینے کی پانچ تاریخ کو دہلی پولیس نے انٹر پول کے ہمراہ نیپال میں چھاپہ ماری کی اور کئی کشمیری تاجروں کو گرفتار کیا۔
اس معاملے میں گرفتار کئی افراد کو بعد میں رہا بھی کیا گیا تاہم ان دونوں بھائیوں کا 20 برس کا طویل ترین وقفہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی اطلاع نہیں۔
سرینگر کے مہاراج گنج علاقے کے رہنے والے عبدالاحد راہ کا کہنا ہے کہ "میرے بیٹوں کی گرفتاری کی جب مجھے اطلاع ملی تو میں فوراً نیپال گیا، وہاں مجھے پتہ چلا کہ اُن کو جودھپور جیل منتقل کیا گیا ہے۔ پھر میں اپنے بھائی کے ساتھ جودھپور روانہ ہوا۔ وہاں پہلے جیل انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ میرے بیٹے اسی جیل میں ہیں اور مجھ سے سرینگر سے 'ایفی ڈیفٹ' لانے کو کہا گیا اور میں نے دستاویزات لاکر دکھائے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'جب میں تمام دستاویزات تیار کر کے دوبارہ جودھپور جیل گیا تو جیل انتظامیہ نے مجھے اپنے بچوں سے یہ کہ کر ملنے نہیں دیا کہ سرینگر انتظامیہ سے ہمیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ملاقات کی اجازت کسی کو نہ دی جائے۔
کافی التماس اور درخواست کے باوجود بھی مجھے میرے بیٹوں سے ملنے نہیں دیا گیا، عبدالاحد راہ کا کہنا ہے کہ 'جودھپور میں سی آئی ڈی نے ہمیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ'جودھپور جیل پر حملہ ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے لہذا آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ ہمیں آپ کو گرفتار کرنا پڑ سکتا ہے'۔
عبدالاحد راہ اپنے بیٹوں سے بنا ملے واپس سرینگر لوٹ آئے، لیکن اب بھی وہ اپنے بیٹوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اس پیران سالی میں بھی عبدالاحد کا یہی سوال ہے کہ ' میرے بچوں کا کیا قصور ہے، مجھے ان سے ایک ملاقات تو کرا دو۔میں کئی بیماریوں سے اب جوجھ رہا ہوں، آخر میرے بچوں کا قصور تو مجھے بتاؤ، میں مرنے سے پہلے اپنے بچوں کو آخری بار دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنا سارا مال اپنے بیٹے شفیع اور مشتاق کی تلاش میں خرچ کر دیا، یہ مکان ہے یہ بھی بیچ دونگا بس اُن کے بارے میں کوئی کچھ بتادو۔
عبدالاحد کا دعویٰ ہے اُن کے بیٹوں کے ساتھ گرفتار کیے گئے دیگر افراد میں سے زیادہ تر کو رہا کیا گیا ہے تاہم رہا کیے گئے افراد بھی اُن کے بیٹوں کے حوالے سے کوئی جانکاری نہیں دینا چاہتے۔عبدالاحد راہ کی اہلیہ خدیجہ کا کہنا ہے کہ 'ہمارے گھر پر ایک بار پولیس نے چھاپا مارا تھا اور میرے شوہر کو کارگو میں پانچ دن تک رکھا گیا۔ ان سے کافی پوچھ تاچھ کی گئی، لیکن ان سب کے باوجود میرے بچوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔
مزید پڑھیں: رام سنگھ ٹھاکوری ایک جانباز سپاہی بھی ایک فنکار بھی
خدیجہ کا کہنا ہے کہ میرے دو اور بیٹے ہیں جو اس وقت گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔ میرے شوہر گذشتہ دو برسوں سے بسترمرض پرہیں۔ بیٹوں کے تعلق سے فکر مند رہنے کے سبب امراض قلب و جگر کا شکار ہوگئے ہیں، ہم بس اپنے بچوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔