سپریم کورٹ کے 76 وکلاء نے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو خط لکھ کر ہریدوار اور دہلی میں 17 اور 19 نومبر کے درمیان دائیں بازو کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں نفرت انگیز تقاریر اور اسی طرح کے پروگراموں پر تشویش کا اظہار کیا ہے 76 lawyers write to CJI۔
ہریدوار میں، اس تقریب کا اہتمام غازی آباد کے ایک مندر کے ہیڈ پجاری، یتی نرسگھنند سرسوتی نے کیا تھا، جن کے خلاف پہلے ہی متعدد مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح کی ایک تقریب دہلی میں دائیں بازو کے ایک اور گروپ ہندو یووا واہنی نے منعقد کی تھی event was organised by Yati Narsinghanand Saraswati۔
دونوں پروگرامس کے دوران نفرت انگیز تقاریر میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی نسل کشی کر کے ''ملک کو پاک'' کرنے کے لیے کھلے عام مطالبات کیے گئے جس کے خلاف حزب اختلاف کے کئی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا Hate speeches against Muslims۔
اب، سپریم کورٹ کے وکلاء نے بھی کھلے عام نسل کشی کی دھمکی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور CJI پر زور دیا ہے کہ وہ اس کا از خود نوٹس لیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ''اس دوران ہونے والے واقعات اور تقاریر محض نفرت انگیز تقاریر نہیں ہیں بلکہ ایک پوری کمیونٹی کے نسل کشی کی کھلی دھمکی کے مترادف ہیں، اس طرح مذکورہ تقاریر نہ صرف ہمارے ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے سنگین خطرہ ہیں، بلکہ لاکھوں مسلم شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔"
خط پر دستخط کرنے والوں میں پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش، دشینت دیو، پرشانت بھوشن، ورندا گروور، میناکشی اروڑہ اور سلمان خورشید جیسے نامور وکلاء شامل ہیں۔
وکلاء نے CJI پر زور دیا ہے کہ وہ ہدایت دیں کہ قصورواروں کے خلاف تعزیرات ہند 1860 کی دفعہ 120B، 121A، 153A، 153B، 295A اور 298 کے تحت کارروائی کی جائے Action be taken against the guilty persons۔
خط میں مزید کہا گیا ہے"یہ بھی نشاندہی کی جاتی ہے کہ حالیہ تقاریر اسی طرح کی تقریروں کے سلسلے کا حصہ ہیں جو ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل نفرت انگیز تقاریر کے سلسلے میں آئی پی سی کی 153، 153 اے، 153 بی، 295 اے، 504، 506، 120 بی، 34 کی دفعات کے تحت کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس طرح ایسے واقعات کو روکنے کے لیے فوری عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے جو بظاہر روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت چند عرضیاں بھی سپریم کورٹ کے سامنے زیر غور ہیں۔
"اس امید کے ساتھ کہ CJI ملک کے عدالتی ونگ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے اختیارات کے مطابق، فوری کارروائی کریں گے اور عدلیہ کی آزادی کے ساتھ ساتھ ان آئینی اقدار کے بارے میں اپنی وابستگی کو جانتے ہوئے جو ایک کثیر الثقافتی ملک کے کام کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ "CJI to take prompt action۔
یہ بھی پڑھیں : Pegasus probe: سپریم کورٹ نے مغربی بنگال کے لوکور انکوائری کمیشن پر روک لگا دی