این آئی اے کی نمائندگی کرنے والے سرکاری وکیل سندیش پاٹل نے کہا کہ اب تک خصوصی این آئی اے عدالت میں 181 سرکاری گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں اور کورونا کی وجہ سے عدالتی کارروائی تعطل کا شکار ہے۔
بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس این ایم جمعدار کو سرکاری وکیل نے بتایا کہ اگر کرنل پروہت اس کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن واپس لینا چاہتا ہے تو اس پر این آئی اے کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر وہ چاہتا ہے کہ ہائی کورٹ، این آئی اے عدالت کے فیصلہ کوتبدیل کردے تو اس پر ہمیں اعتراض ہے۔
اسی درمیان بم دھماکہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے عدالت کو کہا کہ وہ این آئی اے کے وکیل کے بیان سے متفق ہیں اور عدالت اس تعلق سے فیصلہ کرسکتی ہے۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے عدالت کو مزید کہا کہ ملزم کرنل پروہت این آئی اے عدالت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا ہے اور وہ کورونا کا بہانا بناکر عدالت سے اکثر غیر حاضر رہتا ہے لیکن ہائی کورٹ میں دوران سماعت حاضر ہوجاتا ہے۔
دوران سماعت کرنل پروہت کے وکیل شری کانت نے عدالت کو بتایا کہ وہ این آئی اے عدالت میں تازہ عرضداشت داخل کرنے تیار ہیں لیکن پہلے ہائی کورٹ کو این آئی اے عدالت کے فیصلہ کو کالعدم قرار دینا چاہئے۔
اس بات پر جسٹس ایس ایس شندے نے کہا کہ وہ کرنل پروہت کی عرضداشت پر پیر کے دن دوپیر ڈھائی بجے سماعت کریں گے کیونکہ عدالت فریقین کے دلائل کی سماعت کے بغیر اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ صادر نہیں کرسکتی۔
واضح رہے کہ ایڈوکیٹ ششی کانت شیودے نے گذشتہ سماعت پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کو گرفتار کرنے سے قبل اے ٹی ایس نے کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ (2) 197کے تحت ضروری خصوصی اجازت نامہ یعنی کے سینکشن آرڈر حاصل نہیں کیا تھا لہٰذا ملزم کی گرفتاری ہی غیر قانونی ہے اور اسے مقدمہ سے ڈسچارج کردینا چائے جبکہ استغاثہ کا کہنا ہیکہ ملزم غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا اس لیے سینکشن حاصل کرنا ضروری نہیں تھا۔