ریاست بہار میں ضمنی انتخابات (By-elections) میں دو اسمبلی سیٹوں پر حکمراں جماعت جے ڈی یو نے کامیابی حاصل کی ہے، اس الیکشن میں مسلم ووٹرز کے ایک بڑے حصے کا جھکاؤ جے ڈی یو کی طرف رہا ہے۔ اسے ایک بڑے سیاسی اتحاد کی طرف اشارہ قرار دیا جارہا ہے۔ جے ڈی یو کی جیت پر بہار میں نئے سرے سے مسلم سیاست پر بحثیں ہونے لگی ہیں۔
اس موقع پر جے ڈی یو کے قدآور رہنما مولانا عمر نورانی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بغیر کسی تفریق کے مذہب و برادری کی زنجیر کو توڑ کر حکومت کے ذریعے ترقیاتی کام کئے اور پارٹی میں سبھی کو برابری کا حق دیا۔
انہوں نے کہا کہ افواہوں کی وجہ سے 2020 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کا جھکاؤ جے ڈی یو کی طرف کم تھا لیکن ختم نہیں ہوا تھا۔ تاہم ضمنی انتخابات میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہی ریاست کی اور مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ بہار میں فساد اور مذہبی منافرت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ پارٹی نے مسلم رہنماؤں پر مکمل اعتماد کیا جسکا مثبت نتیجہ ہمارے سامنے ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہار میں ایک الگ الائنس ووٹنگ کے لحاظ سے ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آر جے ڈی نے مسلمانوں کے فلاح کے لیے کبھی نہیں سوچا حتٰی کہ مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا بھی خیال نہیں رکھا۔ ضمنی انتخاب میں مسلم رہنماؤں کو آرجے ڈی نے دور رکھا۔
مزید پڑھیں:۔ نتیش کمار میں وزیراعظم بننے کی تمام تر صلاحیتیں موجود: غلام رسول بلیاوی
آپ کو بتادیں کہ بہار میں دو سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں حکمراں جماعت جے ڈی یو کی جیت کے بعد آگے کی سیاست و اتحاد کی قیاس آرائی کے ساتھ بحث و مباحثہ کا نیا دور شروع ہوگیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جے ڈی یو کی جیت میں مسلمانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں اس بار جی ڈی یو کی طرف مسلم ووٹروں کا جھکاؤ ضمنی انتخابات میں دیکھنے کو ملا ہے. اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ برسوں بعد جے ڈی یو نے اپنے مسلم رہنماؤں اور کارکنوں کو کھل کر تشہیری مہم چلانے، رہنماؤں کو اپنی سطح سے فیصلے لینے اور میڈیا میں مسلمانوں کی حمایت میں بیانات دینے کی چھوٹ دے رکھی تھی۔ پارٹی کے سبھی چھوٹے بڑے مسلم رہنماء دونوں جگہوں " تارا پور اور کوشیشور دھام" پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی آر جے ڈی نے مسلم رہنماؤں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ آرجے ڈی میں فی الحال مسلمانوں کا کوئی بڑا چہرہ رہنما کے طور پر نہیں ہے حالانکہ آرجے ڈی میں مسلم رکن اسمبلی اور راجیہ سبھا رکن بھی مسلم رہنما ہیں تاہم پارٹی کی نئی قیادت میں مسلم رہنماؤں کے چہرے پر گرد و غبار اس طرح سے ڈالے گئے ہیں کہ کوئی صاف اور بڑا چہرہ نظر نہیں آتا ہے۔
مرکزی وزیر و سابق قومی صدر جے ڈی یو آرسی پی سنگھ کے تنظیمی کام سے الگ ہوتے ہی مسلم رہنماء سرگرم ہوگئے ہیں جو کہ بہار کی مسلم سیاست پر نئے سرے سے بحث تیز ہوگئی ہے کہ کیا جے ڈی یو پر مسلمانوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے؟
واضح رہے کہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو نے گیارہ مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا تاہم ایک بھی مسلم امیدوار جیت درج نہیں کرسکے تھے جس کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ مسلم نتیش کمار اور ان کی پارٹی کو بہار حکومت میں نہیں چاہتے ہیں تاہم ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کی بڑھ چڑھ کر حصہ داری پر سیاسی جماعتوں میں باتیں ہونے لگی ہیں کہ مسلمانوں نے جے ڈی یو کو ووٹ دیا جس کی وجہ سے جے ڈی یو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔