آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ نکاح انسانی زندگی Reaction on Girls Marriages Age کی ایک اہم ضرورت ہے نکاح کس عمر میں ہو اس کے لیے کسی متعین عمر کو پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا۔
انہوں نے کہاکہ نکاح کی عمر متعین کرنا ایک بالغ شخص کی شخصی آزادی میں مداخلت ہے کرنا ہے، کیونکہ یہ حق اس شخص کی ہی حاصل ہے کہ وہ کب شادی کرے۔' اس سلسلے میں لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے نقصاندہ قانون بنانے سے باز رہے۔'وہیں آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے چیف امام مولانا عمیر الیاسی نے کہاکہ Reaction on Girls Marriages Age اس فیصلے کو خواتین کی صحت سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے، کیونکہ 21 برس کی عمر میں لڑکیاں گریجویشن مکمل کر پاتی ہے، ایسے میں وہ زیادہ سنجیدہ اور با اختیار ہو جاتی ہیں اور اپنے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں انہیں دشواری نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہاکہ سرکار کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے۔'آنڈین یونین مسلم لیگ کے قومی سیکرٹری خرم انیس نے کہاکہ' Reaction on Girls Marriages Age ان کی جماعت نے پارلیمنٹ میں اس قانون کی مخالفت کی ہے جس کی وجہ سے اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔'انہوں نے کہاکہ' جہاں ایک طرف آج 18 برس کی عمر میں آپ کو جنسی تعلقات قائم کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے وہاں آپ شادی پر پابندی لگا رہے ہیں۔'انہوں نے مزید کہاکہ حکومت بغیر کچھ سوچے سمجھے کوئی بھی قانون پاس کر دیتی ہے اور لڑکیوں کی عمر میں مزید بڑھانے کا فیصلہ بھی حکومت نے بغیر سوچے سمجھے لیا ہے ہم اس کی مکمّل طور پر مخالفت کرتے ہیں۔'واضح رہے کہ ابھی تک لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 18 برس ہوا کرتی تھی جس میں 3 سال کا مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ کابینہ نے گذشتہ دنوں ایک میٹنگ میں چائلڈ میرج ایکٹ 2006، اسپیشل میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ 1955 میں ترمیم کو منظوری دی جس سے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر برابر ہو گئی ہے۔'
مزید پڑھیں: