پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے لڑکیوں کی شادی کی عمر کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت 18 سال سے کم عمر مسلمان لڑکی اپنی پسند کے کسی بھی لڑکے سے شادی کر سکتی ہے اور قانونی طور پر اہل خانہ اس معاملے میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔ یہ فیصلہ جسٹس الکا سارین نے مسلم مذہبی کتاب کے آرٹیکل 195 کی بنیاد پر دیا ہے۔
دراصل پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں موہالی سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان جوڑے کی طرف سے ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ 36 سالہ نوجوان اور ایک 17 سالہ مسلمان لڑکی کو ایک دوسرے سے پیار ہوگیا تھا۔ اس سال 21 جنوری کو دونوں نے نکاح کر لیا۔ یہ دونوں کی پہلی شادی تھی، لیکن ان کے خاندان والے اس رشتے سے خوش نہیں تھے۔ خاندان کی طرف سے دونوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ خاندان کی مداخلت کے بعد دونوں نے عدالت سے رجوع کیا۔
دونوں نے عدالت میں درخواست دائر کر کے سیکورٹی کا مطالبہ کیا تھا۔ وہیں، خاندان والوں کی یہ دلیل تھی کہ لڑکی نابالغ ہے، اس لیے ان کا نکاح غیر قانونی ہے۔ اس کے برعکس درخواست گزار کی دلیل تھی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت 15 سال کا مسلم لڑکا اور لڑکی نکاح کرسکتے ہیں۔
اس معاملے پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے سر ڈی فردونجی کی کتاب پرنسپل آف محمدن لاء کا حوالہ دیا۔ عدالت نے کہا کہ مسلم لڑکا اور لڑکی اپنی پسند کے کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ انہیں کسی سے بھی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ طے کیا گیا ہے۔