ETV Bharat / bharat

مجاہد آزادی کُھدی رام بوس جنہیں 19 برس کی عمر میں پھانسی دے دی گئی

author img

By

Published : Aug 15, 2021, 10:24 AM IST

Updated : Aug 16, 2021, 6:00 PM IST

کھُدی رام بوس کا شمار بھارت کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں محض 19 برس کی عمر میں پھانسی دی گئی تھی۔ کھُدی رام بوس کی جرات اور دلیری سے برطانوی حکومت کو ناکوں چنے چبانے پڑے تھے۔

مجاہد آزادی کُھدی رام بوس
مجاہد آزادی کُھدی رام بوس

سنہ 1908 میں کھُدی رام بوس نے مظفر پور میں آزادی کی جدوجہد کا بگل بجایا تھا۔

کھُدی رام بوس کی پیدائش سنہ 1889 میں مغربی بنگال کے مِیدنا پور میں ہوئی تھی۔ تاہم مظفر پور ان کے لیے قومی فریضہ سر انجام دینے کی سرزمین بنا۔

مجاہد آزادی کُھدی رام بوس

بوس نے سنہ 1905 میں بنگال کی تقسیم کے دوران آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور آزادی کا متوالا یہ نوجوان لڑکا پہلی بار 28 فروری 1906 کو گرفتار ہوا لیکن کسی طرح برطانوی فوج کے چنگل سے بھاگ نکلا۔

بوس نے دوسرے انقلابیوں کے درمیان ایک نئی توانائی پیدا کر دی تھی۔ وہ اتنے بہادر اور دلیر تھے کہ اپنی پھانسی کا حکم سن کر ہنسنے لگے جس نے جج کو الجھن میں ڈال دیا تھا۔ بوس کو مسکراتا دیکھ کر جج اپنے آپ کو روک نہ سکا اور پوچھا کہ بوس پھانسی کے فیصلے کو سمجھتا ہے یا نہیں۔ بوس نے ایسا جواب دیا کہ جج دنگ رہ گیا۔

بوس نے کہا کہ وہ نہ صرف فیصلے کو سمجھتے ہیں بلکہ اگر انہیں وقت دیا جائے تو وہ انہیں یہ بھی سِکھائیں گے کہ بم کو کس طرح اسمبل کیا جاتا ہے۔

ایسے بہادر انقلابیوں کی وجہ سے ہم آج کُھلی فضا میں سانس لینے کے قابل ہیں۔

کھُدی رام بوس 3 دسمبر 1889 کو پیدا ہوئے۔

  • ان کی پیدائش مغربی بنگال کے مِیدنا پور میں ہوئی تھی۔
  • بہار کا مظفر پور، بوس کے لیے لینڈ آف ڈیوٹی بنا۔
  • سنہ 1905 میں بنگال تقسیم کی مخالفت کے لیے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
  • بوس کو پہلی بار 28 فروری 1906 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
  • بوس انگریزوں کے چنگل سے بچ نکلے تھے۔
  • کُھدی رام بوس کو 19 سال کی عمر میں پھانسی دی گئی۔

مظفر پور کی سرزمین سے کُھدی رام بوس نے انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی یادیں آج بھی اسی جگہ محفوظ ہیں جہاں انہوں نے اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے شہادت پائی تھی۔

تاہم حکومت اور ضلع انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے اس کی چند یادیں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔

سینئر مؤرخ ڈاکٹر سنجے پنکج نے کہا کہ کُھدی رام بوس کا مظفر پور سے گہرا تعلق ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو آزادی کے اس عظیم متوالے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

بوس کو سزائے موت کیوں دی گئی؟

  • بوس نے جج ڈوگلس کنگز فورڈ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
  • انہوں نے اپنے دوست پرفُل چاکی کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا تھا۔
  • 30 اپریل 1908 کو سیشن جج کی گاڑی پر بم پھینکا تھا۔
  • سیشن جج کی بجائے ایک دیگر شخص وہاں موجود تھا۔
  • بم پھینکنے کے نتیجے میں دو برطانوی خواتین ہلاک ہوئی تھیں۔
  • گاڑی پر حملے کے بعد انگریزوں نے کُھدی رام پر ضرب لگائی۔
  • کُھدی رام کو سمستی پور ضلع کے پوسا ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا۔
  • 11 اگست 1908 کو کُھدی رام بوس کو پھانسی دی گئی تھی۔
  • کُھدی رام بوس کی پھانسی کے بعد بنگال میں ایک خاص قسم کی دھوتی بنائی گئی جس پر کُھدی رام بوس لکھا ہوا تھا۔

برطانوی حکومت اس نوجوان مجاہد آزادی سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اسے 19 سال کی عمر میں ہی پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

کُھدی رام بوس نے ملک کے لیے سب سے بڑی قربانی دی اور آزادی کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

مظفر پور سینٹرل جیل کا وہ سیل جہاں اس عظیم انقلابی کو قید میں رکھا گیا تھا آج بھی محفوظ ہے۔ مظفر پور کی سینٹرل جیل کا نام شہید کُھدی رام بوس سینٹرل جیل رکھا گیا ہے۔

کُھدی رام بوس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صبح 4 بجے ان کا یوم شہادت منانے کے لیے سرکاری تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ وہ جگہ جو عوام کے لیے کُھلی ہونی چاہیے وہاں جانا عام آدمی کے لیے ممنوع ہے۔

  • مظفر پور کُھدی رام بوس کی لینڈ آف ڈیوٹی ہے۔
  • مغربی بنگال میں پیدا ہونے والے کُھدی رام بوس کی لینڈ آف ایکشن مظفر پور تھی۔
  • جنگ آزادی میں تِروہت کی مٹی کا اس میں اہم کردار ہے۔
  • مظفر پور میں کچھ یادیں اب بھی محفوظ ہیں۔
  • سرکاری مِشنری کی غفلت کی وجہ سے کچھ یادگاریں تباہ ہو رہی ہیں۔
  • شہادت کی جگہ کو پُرکشش مقام میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
  • یہاں عام آدمی کا جانا ممنوع ہے۔
  • اس کیس کی سماعت سے متعلق تمام دستاویزات بہار میں دستیاب نہیں ہیں۔
  • بہار میں ہونے کی بجائے وہ دستاویزات کولکاتہ کے ایک میوزیم میں رکھی ہوئی ہیں۔

سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر ایس کے جھا، کا خیال ہے کہ لوگ کُھدی رام بوس کا نام بھول رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل اور فیصلے کی کاپی مظفر پور میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بہار کا ورثہ کولکاتہ کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔

کُھدی رام بوس کی یادیں ابھی تک مظفر پور میں زندہ ہیں جنہوں نے محض 19 سال کی عمر میں مسکراتے ہوئے ملک کے لیے جان قربان کر دی تھی، لیکن وہ جگہ جہاں اس سپوت نے اپنی جان قربان کر کے دیگر انقلابیوں میں نئی توانائی پیدا کی تھی وہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہے۔

ایسی جگہوں کو عوام کے لیے کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل اس عظیم آزادی پسند نواجوان کے بارے میں جان سکے۔

سنہ 1908 میں کھُدی رام بوس نے مظفر پور میں آزادی کی جدوجہد کا بگل بجایا تھا۔

کھُدی رام بوس کی پیدائش سنہ 1889 میں مغربی بنگال کے مِیدنا پور میں ہوئی تھی۔ تاہم مظفر پور ان کے لیے قومی فریضہ سر انجام دینے کی سرزمین بنا۔

مجاہد آزادی کُھدی رام بوس

بوس نے سنہ 1905 میں بنگال کی تقسیم کے دوران آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور آزادی کا متوالا یہ نوجوان لڑکا پہلی بار 28 فروری 1906 کو گرفتار ہوا لیکن کسی طرح برطانوی فوج کے چنگل سے بھاگ نکلا۔

بوس نے دوسرے انقلابیوں کے درمیان ایک نئی توانائی پیدا کر دی تھی۔ وہ اتنے بہادر اور دلیر تھے کہ اپنی پھانسی کا حکم سن کر ہنسنے لگے جس نے جج کو الجھن میں ڈال دیا تھا۔ بوس کو مسکراتا دیکھ کر جج اپنے آپ کو روک نہ سکا اور پوچھا کہ بوس پھانسی کے فیصلے کو سمجھتا ہے یا نہیں۔ بوس نے ایسا جواب دیا کہ جج دنگ رہ گیا۔

بوس نے کہا کہ وہ نہ صرف فیصلے کو سمجھتے ہیں بلکہ اگر انہیں وقت دیا جائے تو وہ انہیں یہ بھی سِکھائیں گے کہ بم کو کس طرح اسمبل کیا جاتا ہے۔

ایسے بہادر انقلابیوں کی وجہ سے ہم آج کُھلی فضا میں سانس لینے کے قابل ہیں۔

کھُدی رام بوس 3 دسمبر 1889 کو پیدا ہوئے۔

  • ان کی پیدائش مغربی بنگال کے مِیدنا پور میں ہوئی تھی۔
  • بہار کا مظفر پور، بوس کے لیے لینڈ آف ڈیوٹی بنا۔
  • سنہ 1905 میں بنگال تقسیم کی مخالفت کے لیے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
  • بوس کو پہلی بار 28 فروری 1906 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
  • بوس انگریزوں کے چنگل سے بچ نکلے تھے۔
  • کُھدی رام بوس کو 19 سال کی عمر میں پھانسی دی گئی۔

مظفر پور کی سرزمین سے کُھدی رام بوس نے انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی یادیں آج بھی اسی جگہ محفوظ ہیں جہاں انہوں نے اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے شہادت پائی تھی۔

تاہم حکومت اور ضلع انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے اس کی چند یادیں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔

سینئر مؤرخ ڈاکٹر سنجے پنکج نے کہا کہ کُھدی رام بوس کا مظفر پور سے گہرا تعلق ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو آزادی کے اس عظیم متوالے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

بوس کو سزائے موت کیوں دی گئی؟

  • بوس نے جج ڈوگلس کنگز فورڈ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
  • انہوں نے اپنے دوست پرفُل چاکی کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا تھا۔
  • 30 اپریل 1908 کو سیشن جج کی گاڑی پر بم پھینکا تھا۔
  • سیشن جج کی بجائے ایک دیگر شخص وہاں موجود تھا۔
  • بم پھینکنے کے نتیجے میں دو برطانوی خواتین ہلاک ہوئی تھیں۔
  • گاڑی پر حملے کے بعد انگریزوں نے کُھدی رام پر ضرب لگائی۔
  • کُھدی رام کو سمستی پور ضلع کے پوسا ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا۔
  • 11 اگست 1908 کو کُھدی رام بوس کو پھانسی دی گئی تھی۔
  • کُھدی رام بوس کی پھانسی کے بعد بنگال میں ایک خاص قسم کی دھوتی بنائی گئی جس پر کُھدی رام بوس لکھا ہوا تھا۔

برطانوی حکومت اس نوجوان مجاہد آزادی سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اسے 19 سال کی عمر میں ہی پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

کُھدی رام بوس نے ملک کے لیے سب سے بڑی قربانی دی اور آزادی کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

مظفر پور سینٹرل جیل کا وہ سیل جہاں اس عظیم انقلابی کو قید میں رکھا گیا تھا آج بھی محفوظ ہے۔ مظفر پور کی سینٹرل جیل کا نام شہید کُھدی رام بوس سینٹرل جیل رکھا گیا ہے۔

کُھدی رام بوس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صبح 4 بجے ان کا یوم شہادت منانے کے لیے سرکاری تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ وہ جگہ جو عوام کے لیے کُھلی ہونی چاہیے وہاں جانا عام آدمی کے لیے ممنوع ہے۔

  • مظفر پور کُھدی رام بوس کی لینڈ آف ڈیوٹی ہے۔
  • مغربی بنگال میں پیدا ہونے والے کُھدی رام بوس کی لینڈ آف ایکشن مظفر پور تھی۔
  • جنگ آزادی میں تِروہت کی مٹی کا اس میں اہم کردار ہے۔
  • مظفر پور میں کچھ یادیں اب بھی محفوظ ہیں۔
  • سرکاری مِشنری کی غفلت کی وجہ سے کچھ یادگاریں تباہ ہو رہی ہیں۔
  • شہادت کی جگہ کو پُرکشش مقام میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
  • یہاں عام آدمی کا جانا ممنوع ہے۔
  • اس کیس کی سماعت سے متعلق تمام دستاویزات بہار میں دستیاب نہیں ہیں۔
  • بہار میں ہونے کی بجائے وہ دستاویزات کولکاتہ کے ایک میوزیم میں رکھی ہوئی ہیں۔

سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر ایس کے جھا، کا خیال ہے کہ لوگ کُھدی رام بوس کا نام بھول رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل اور فیصلے کی کاپی مظفر پور میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بہار کا ورثہ کولکاتہ کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔

کُھدی رام بوس کی یادیں ابھی تک مظفر پور میں زندہ ہیں جنہوں نے محض 19 سال کی عمر میں مسکراتے ہوئے ملک کے لیے جان قربان کر دی تھی، لیکن وہ جگہ جہاں اس سپوت نے اپنی جان قربان کر کے دیگر انقلابیوں میں نئی توانائی پیدا کی تھی وہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہے۔

ایسی جگہوں کو عوام کے لیے کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل اس عظیم آزادی پسند نواجوان کے بارے میں جان سکے۔

Last Updated : Aug 16, 2021, 6:00 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.