سہارنپور: عالمی شہرت یافتہ اسلامی تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند میں اتوار کو مدرسہ منتظمین کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ رابطہ مدارس کی اس کانفرنس میں مدارس کو کسی بھی بورڈ کے ساتھ منسلک کرنے کی مخالفت کی گئی۔ اس دوران جمعیت کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی بورڈ مدارس کے قیام کا مقصد نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے کسی بورڈ میں شامل ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ مدارس کو کسی حکومتی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ Arshad Madani On Madrasa Issues
بتا دیں کہ ماضی میں اتر پردیش حکومت نے ریاست میں چل رہے مدارس کا سروے کرنے کی ہدایات دی تھی۔ دارالعلوم دیوبند کا یہ بڑا فیصلہ سروے کے بعد دارالعلوم دیوبند سمیت غیر سرکاری مدارس کو غیر تسلیم شدہ قرار دیئے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا سید ارشد مدنی نے دارالعلوم دیوبند کی جامع مسجد میں منعقدہ ملک بھر سے آئے ہوئے ساڑھے چار ہزار مدارس کے منتظمین کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند اور علمائے کرام کا اہم کردار ہے۔ ملک اور مدارس کے قیام کا مقصد ہی ملک کی آزادی تھی۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ مدارس کے لوگوں نے ہی ملک کو انگریزوں کے راج سے آزاد کرایا۔ آج بھی مدارس چلانے والے اپنے ملک سے بے لوث محبت کرتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آج صرف مدارس پر سوالیہ نشان اٹھایا جا رہا ہے۔ مدرسہ چلانے والوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی قابل مذمت کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب کے لیے کام کرتے ہیں تو پھر ہم اپنے مذہب کی حفاظت کیوں نہ کریں، معاشرے کے ساتھ ملک کو بھی مذہبی لوگوں کی ضرورت ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مدارس اور جمعیت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد ہم خود کو الگ تھلگ کر چکے تھے۔ اگر ہم اس وقت ملکی سیاست میں حصہ لیتے تو آج اقتدار میں بڑے حصہ دار ہوتے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ 'مسلم کمیونٹی مدارس کا بوجھ اٹھا رہی ہے اور اسے برداشت کرتی رہے گی، اس لیے ہمیں مدرسہ چلانے کے لیے کسی قسم کی حکومتی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ بہت سے لوگ ملک کے کروڑوں روپے لے کر دوسرے ملکوں میں بھاگ گئے ہیں، لیکن ہم اپنے ملک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کون کس کو ووٹ دیتا ہے یا نہیں۔
عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اورصدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ہم عصری تعلیم کے ہرگزہرگز خلاف نہیں ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کے بچے انجینئر، سائنس داں، قانون داں اورڈاکٹربنیں۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہاکہ مسلم بچے بڑھ چڑھ کر مسابقتی امتحانات میں حصہ لیں اورکامیابی حاصل کریں، لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمارابچہ مذہب اوراس کے عقیدہ کو سیکھ لیں اس لئے کہ جس طرح قوم کو ڈاکٹر، قانون داں، بیرسٹراورانجینئرکی ضرورت ہے زندگی میں ہرجگہ اسی طرح ہماری قوم کو بہترسے بہتر مفتی اوربہترسے بہتر عالم دین کی ضرورت ہے جو مدارس سے ہی پوری ہوسکتی ہیں اورایک ہم ہی کو نہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کوبھی مذہبی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم مدارس کے نظام کو آگے بڑھاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنی مسجدوں اورمدرسوں کے لئے کسی سرکاری مددکی ضرورت نہیں اورنہ ہی مدارس کا الحاق حصول امدادکے لئے کسی سرکاری بورڈسے منظورہے،انہوں نے تاریخی حوالہ سے یہ بھی کہا کہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے وقت ہی یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر معاملات طے کئے جائیں گے، اسی وجہ سے پرانی روئدادسے پتہ چلتاہے کہ غیرمسلم حضرات بھی مدارس میں داخلہ لیتے تھے، اس لئے مدارس اسلامیہ کاوجود ملک کی مخالفت کے لئے نہیں اس کی تعمیروترقی کے لئے ہے، مدارس کا ڈیڑھ سوسالہ کرداراس کا گواہ ہے۔
مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ یوں بھی مدارس کے دروازے تو ہمیشہ سے سب کے لئے کھلے ہیں، ان کے اندرچھپانے جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ مدرسوں میں خالص مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، اوراس کا اختیارہمیں ملک کے آئین نے دیاہے، آئین میں ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اورانہیں چلانے کا مکمل حق بھی دیا ہے انہوں نے کہاکہ یہ الزام بے بنیادہے کہ مدارس میں قتل وقتال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اوراسلام کے سواکسی دوسرے کو جینے کا حق نہیں دینے کی تعلیم دی جاتی ہے، آپ کسی بھی مدرسے میں کسی بھی وقت جاسکتے ہیں وہاں مذہبی کتابوں اورتشنہ گان علوم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ تاریخی طورپریہ بات سچ ہے کہ یہ ہمارے علماء اوراکابرہی تھے جنہوں نے اس وقت ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزادکرانے کا خواب دیکھاجب پوری قوم سورہی تھی، اس کے لئے ہمارے علماء اوراکابرین نے قیدوبندکی صعوبیتیں ہی براداشت نہیں کیں بلکہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا آج ہمارے انہی اکابرین کے ذریعہ لگائے گئے ان درختوں کو جڑسے کاٹ دینے کی سازشیں ہورہی ہیں، ان کی اولادوں کو غداراورملک دشمن قراردیاجارہاہے اوران اداروں کودہشت گردی کا اڈہ بتایاجارہاہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو کالجوں اوریونی ورسیٹیوں سے پڑھ کر نکلے ملک کی لاکھوں ہزارکروڑ کی دولت سمیٹ کر ملک سے فرارہوچکے ہیں، ملک کے عام شہری غربت وافلاس اورمہنگائی میں دب کر موت سے بدترزندگی بسرکررہے ہیں، اوریہ لوگ ملک کا اثاثہ لوٹ کر غیر ممالک میں عیش کررہے ہیں، کیا یہ دیش دروہی نہیں ہیں؟ اورکیا یہ پتہ لگانے کی کوشش نہیں ہوگی کہ ان میں کتنے مسلمان ہیں،؟ سچ تویہ ہے کہ ان کی گردنوں تک قانون کے ہاتھ اب تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: UP Madarsa Board حکومت کی جانب سے مدرسہ بورڈ کیلئے جاری ہدایت کی مخالفت