ETV Bharat / bharat

مظلوم فلسطینیوں سے ان کے جینے کا حق چھین رہا ہے اسرائیل: مولانا ارشد مدنی

حالیہ وحشیانہ حرکت اور بربریت پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں؟ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے مظلوم فلسطینیوں پر ہوئے حالیہ اسرائیلی حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ظلم اور بربریت کی انتہا قرار دیتے ہوئے ان حملوں کو انسانیت پر ایک سنگین حملے سے تعبیر کیا۔

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی
author img

By

Published : May 11, 2021, 10:43 PM IST

انہوں نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ عالمی برادری اور خاص طور پر مسلم ممالک کی خاموشی سے شہہ پا کر اسرائیل اب نہتے اور لاچار فلسطینی عوام سے ان کے جینے کا حق چھین لینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ دنیا اس تاریخی سچائی سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے جبرا قبضہ کر رکھا ہے۔

اب وہ اسی خاموشی کے نتیجہ میں اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کردینے کے درپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے قبضہ کے بعد سے ہی اسرائیل فلسطینی عوام کو مسلسل ظلم وجبر کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس دوران مصالحت اور مفاہمت کی لاتعداد کوششیں ہوئیں لیکن سب کی سب بے سود رہیں۔

بعض طاقتور ملکوں کی در پردہ حمایت کے نتیجہ میں اسرائیل فسلطین کے تعلق سے اقوام متحدہ سے وقت بہ وقت منظور ہوئی قرار دادوں کو بھی اپنے پیروں تلے روندتا رہا ہے اور اب تو مسلم ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد اس کے ناپاک حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مسجد اقصی میں عبادت میں مصروف فسلطینی مرد و خواتین یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کر رہا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اس میں ہماری بے حسی اور خاموشی کا دخل کچھ زیادہ ہے۔ اگر ہم نے یعنی مسلم ممالک اس مسئلہ کی اہمیت اور سنگینی کا ابتداہی میں اندازہ کرکے کوئی مؤثر مشترکہ حکمت عملی فسلطین کے تعلق سے تیار کرلی ہوتی تو آج اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنانے کا خوصلہ نہیں کر سکتا تھا۔

انہوں نے تازہ حملوں کو انسانی حقوق پر ہونے والا سنگین حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی وہ مہذب دنیا بھی اس پر خاموش ہے، جو عالمی امن اور اتحادکی نقیب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ انسانی حقوق کا مسلسل ورد کرنے والے عالمی ادارے بھی چپ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا مذاکرات کے ذریعہ کوئی حل نہ نکالا جاسکے۔

عالمی برادری بالخصوس دنیا کے وہ طاقتور ملک جو اقوام متحدہ کے مستقل ممبر ہیں اگر مخلص ہوتے تو اس مسئلہ کا بھی کوئی پر امن اور قابل قبول حل نکال سکتے تھے۔ مذاکرات کی میز پر بات چیت کا ڈھکوسلا تو کئی بار ہوا مگر افسوس اس مسئلہ کا کوئی حتمی اور پائیدار حل نکال نے کی کوئی ذمہ دارانہ کوشش کبھی نہیں ہوئی۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے لئے بربریت انتہاپسندی اور اس کی مستقبل کی خطرناک منصوبہ بندی ظاہر کردیتی ہے کہ یہ صہیونیت اور اسلام کی ایک جنگ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یورپین یونین ہو، عالمی ادارے ہو یا پھر دنیا کے باثر ممالک کوئی بھی کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا، بلکہ ان کی طرف سے اگر کوئی بیان بھی جاری ہوتا ہے تو نپے تلے لفظ ہوتے ہیں۔

ان الفاظ میں بھی اسرائیل کی حمایت بھی شامل ہوتی ہے، دوسرے اس طرح کے اسرائیلی اقدامات سے اس پورے خطہ میں قیام امن کی کوششوں میں بڑی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ یورپین یونین،ورلڈ مسلم لیگ، حکومت ہند اور تمام انصاف پسند بین لاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جارحانہ ہشت گردی کے خلاف پختہ قدم اٹھائیں۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو بلاتاخیر مسجد اقصی کی حدودسے باہر کیا جائے اور مشرقی یروشلم میں اس کی مداخلت کو روکا جائے۔ مولانا مدنی نے آخر میں یہ کہہ کر مسلم ممالک کی کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اب بھی خاموش رہے تو پھر یہ معاملہ فلسطین کی حدود تک ہی محدودنہیں رہے گا مسلم ممالک اگر اب بھی نہ جاگے تو کل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ عالمی برادری اور خاص طور پر مسلم ممالک کی خاموشی سے شہہ پا کر اسرائیل اب نہتے اور لاچار فلسطینی عوام سے ان کے جینے کا حق چھین لینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ دنیا اس تاریخی سچائی سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے جبرا قبضہ کر رکھا ہے۔

اب وہ اسی خاموشی کے نتیجہ میں اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کردینے کے درپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے قبضہ کے بعد سے ہی اسرائیل فلسطینی عوام کو مسلسل ظلم وجبر کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس دوران مصالحت اور مفاہمت کی لاتعداد کوششیں ہوئیں لیکن سب کی سب بے سود رہیں۔

بعض طاقتور ملکوں کی در پردہ حمایت کے نتیجہ میں اسرائیل فسلطین کے تعلق سے اقوام متحدہ سے وقت بہ وقت منظور ہوئی قرار دادوں کو بھی اپنے پیروں تلے روندتا رہا ہے اور اب تو مسلم ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد اس کے ناپاک حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مسجد اقصی میں عبادت میں مصروف فسلطینی مرد و خواتین یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کر رہا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اس میں ہماری بے حسی اور خاموشی کا دخل کچھ زیادہ ہے۔ اگر ہم نے یعنی مسلم ممالک اس مسئلہ کی اہمیت اور سنگینی کا ابتداہی میں اندازہ کرکے کوئی مؤثر مشترکہ حکمت عملی فسلطین کے تعلق سے تیار کرلی ہوتی تو آج اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنانے کا خوصلہ نہیں کر سکتا تھا۔

انہوں نے تازہ حملوں کو انسانی حقوق پر ہونے والا سنگین حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی وہ مہذب دنیا بھی اس پر خاموش ہے، جو عالمی امن اور اتحادکی نقیب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ انسانی حقوق کا مسلسل ورد کرنے والے عالمی ادارے بھی چپ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا مذاکرات کے ذریعہ کوئی حل نہ نکالا جاسکے۔

عالمی برادری بالخصوس دنیا کے وہ طاقتور ملک جو اقوام متحدہ کے مستقل ممبر ہیں اگر مخلص ہوتے تو اس مسئلہ کا بھی کوئی پر امن اور قابل قبول حل نکال سکتے تھے۔ مذاکرات کی میز پر بات چیت کا ڈھکوسلا تو کئی بار ہوا مگر افسوس اس مسئلہ کا کوئی حتمی اور پائیدار حل نکال نے کی کوئی ذمہ دارانہ کوشش کبھی نہیں ہوئی۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے لئے بربریت انتہاپسندی اور اس کی مستقبل کی خطرناک منصوبہ بندی ظاہر کردیتی ہے کہ یہ صہیونیت اور اسلام کی ایک جنگ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یورپین یونین ہو، عالمی ادارے ہو یا پھر دنیا کے باثر ممالک کوئی بھی کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا، بلکہ ان کی طرف سے اگر کوئی بیان بھی جاری ہوتا ہے تو نپے تلے لفظ ہوتے ہیں۔

ان الفاظ میں بھی اسرائیل کی حمایت بھی شامل ہوتی ہے، دوسرے اس طرح کے اسرائیلی اقدامات سے اس پورے خطہ میں قیام امن کی کوششوں میں بڑی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ یورپین یونین،ورلڈ مسلم لیگ، حکومت ہند اور تمام انصاف پسند بین لاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جارحانہ ہشت گردی کے خلاف پختہ قدم اٹھائیں۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو بلاتاخیر مسجد اقصی کی حدودسے باہر کیا جائے اور مشرقی یروشلم میں اس کی مداخلت کو روکا جائے۔ مولانا مدنی نے آخر میں یہ کہہ کر مسلم ممالک کی کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اب بھی خاموش رہے تو پھر یہ معاملہ فلسطین کی حدود تک ہی محدودنہیں رہے گا مسلم ممالک اگر اب بھی نہ جاگے تو کل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.