جنوبی کشمیر کے دیگر علاقوں کی طرح ترال علاقے میں بھی رواں سال جنگلی جانوروں کے بستیوں کی جانب رخ کرنے کی خبروں میں غیر معمولی اضافہ درج کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے عوامی حلقوں میں زبردست تشویش پائی جا رہی ہے۔ تاہم وائلڈ لائف محکمے کی جانب سے انسانی جان ومال کو بچانے کی خاطر مناسب اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔
لوگ اس بات پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ آخر یہ محکمہ کیا کر رہا ہے! کیوں جنگلی جانوروں اور انسانی تصادم کی خبریں اب یہاں معمول بن گئی ہیں۔ سول سوسائٹی ترال اور سٹیزن کونسل جیسے ادارے بھی معاملے پر لب کشائی سے گریزاں ہیں۔
گزشتہ دنوں ترال علاقے کے امیرآباد، سیموہ، بوچھو، لالہ گام، سیر جاگیر اور دیگر دیہات میں اگرچہ وائلڈ لائف محکمے کی جانب سے کئی کامیاب آپریشن بھی کیے گئے لیکن مجموعی طور پر عوام محکمے کی کارکردگی سے نالاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم کی کیا وجہ ہے؟
رینج افیسر وائلڈ لائف ترال شوکت احمد جان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انکا محکمہ چوبیس گھنٹے کام پر لگا ہوا ہے اور اب تک کئ ریچھوں کو قابو کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ جنگلی جانوروں کے ساتھ تصادم میں زخمی افراد کی مالی معاونت کی جا رہی ہے تاہم لوگوں کا ماننا ہے کہ محکمہ کے عارضی ملازمین ہی قابل تحسین کام کر رہے ہیں جنکی مستقلی کے حوالے سے محکمہ خاموش ہے۔
تاہم شوکت احمد جان نے اعتراف کیا کہ محکمے کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے جسکے باوجود وہ کام تن دہی سے کرتے ہیں۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ سیزن کے دوران احتیاط سے کام لیں اور جنگلی جانوروں کو دیکھر شور نہ اٹھائیں۔
بتادیں کہ وادی میں اپریل 2020 سے مارچ 2021تک انسانی اور جنگلی جانوروں کے تصادم کے سولہ سو چودہ معاملات سامنے آئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔