ETV Bharat / bharat

Magnificient Jama Masjid Link to Freedom Struggle: جامع مسجد کے تذکرہ کے بغیر آزادی کا جشن ادھورا

author img

By

Published : Jan 30, 2022, 6:05 AM IST

آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، ایسے میں یوم آزادی کا جشن جامع مسجد کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔ آئیے جانتتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں دہلی کی جامع مسجد کا کیا رول رہا۔ جامع مسجد کی یہ نادر تاریخی کہانی کسی خزانہ سے کم نہیں ہے۔ Magnificient Jama Masjid link to freedom struggle

جامع مسجد کے تذکرہ کے بغیر آزادی کا جشن ادھورا

قومی دارالحکومت دہلی میں واقع شاہی جامع مسجد بھارت کے ان قیمتی ورثوں میں سے ایک ہے جس پر آج بھی بھارت کو فخر ہے۔ India Still Proudly Boasts Jama masjid

ویڈیو

فن تعمیر کی عظیم شاہکار ہونے کے علاوہ شاہی جامع مسجد کو سیاسی و ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے۔ تاہم بھارت کی جنگ آزدی شاہی جامع مسجد کا جو کردار رہا، اس سے آج بھی بہت سارے سے لوگ ناواقف ہیں۔ جامع مسجد کی یہ نادر تاریخی کہانی کسی خزانہ سے کم نہیں ہے۔ تو آئیے جانتتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں دہلی کی جامع مسجد کا کیا رول رہا۔ Magnificient Jama Masjid link to freedom struggle

آزادی کی جد و جہد میں جامع مسجد لاکھوں انقلابیوں کی پناہ گاہ بنی۔ اسی وجہ سے انگریزوں نے جامع مسجد کو طویل عرصے تک بند رکھا۔ طویل بندش کے بعد سنہ 1962 میں مسجد کو نمازیوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا۔

انقلاب اور بھارت کی آزادی کے علاوہ تقسیم ہند کے دوران بھی مسجد نے عوام تک مثبت پیغام پہنچایا۔ سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد جب بھارتی مسلمان سیاسی طور پر الجھن میں پھنسے ہوئے تھے کہ انہیں ملک چھوڑنا ہے یا نہیں۔ تب مولانا ابوالکلام آزاد نے اسی جامع مسجد کے احاطے سے بھارتی مسلمانوں کو خطاب کیا۔

مولانا نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ اب بھارتی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ مسلم لیگ کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم یہاں ہندوستانی کے طور پر ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے ہندستان سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔ مولانا آزاد نے اپنی تقریر میں بھارتی مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی۔

آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والے فوجیوں کی پناہ گاہ اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر کے علاوہ یہاں سے ایک اور انقلابی کہانی کی شروعات ہوئی۔ ایک غیر مسلم پنڈت یعنی سوامی شردھانند سرسوتی نے مسجد کی سیٹرھیوں سے ہندو مسلم اتحاد یعنی گنگا جمونی تہذیب کا پیغام دیا۔

یہ ہندستان کی سماجی و سیاسی محرکات کے لیے ایک اہم وقت تھا، کیوں کہ تب ملک میں ہندو مسلم بھائی چارے کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ ان کی تقریر شاید ہندوستان کی تاریخ کی سب سے شاندار تقریروں میں سے ایک تھی، جہاں بھگوا پوش ہندو پنڈت نے مسجد کی سیڑھیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا پیغام دیا تھا۔

آج بھی مختلف مواقع پر جامع مسجد کی بنیاد ہندوستانیت کے تانے بانے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، یوم آزادی کا جشن جامع مسجد کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔

بھارت کو جن عمارتوں پر فخر ہے ان میں سے ایک جامع مسجد بھی ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی اس عبادت گاہ کی بنیاد سنہ 1656 میں رکھی گئی تھی لیکن اس کے بعد سے یہ مسجد بھارت کے بھائی چارے کی بنیاد کو مضبوط کرتی آئی ہے۔

آج ہمیں ضرورت ہے ان علامتوں اور ان پیغامات کی جو ہندوستانیت کے تانے بانے کو مضبوط کریں۔ ایسے میں جامع مسجد ایک شاندار مثال ہو سکتی ہے۔

تعمیر کی بات کریں تو یہ قدیم ترین مسجد کاریگری اور نقش و نگار کے لحاظ سے بھی جدیدیت کا آئینہ دار ہے۔ پرانی دہلی کی یہ سب سے بڑی مسجد مغل بادشاہ شاہ جہاں کے شاندار فن تعمیر اور جمالیاتی احساس کا نمونہ ہے۔ 65 میٹر لمبی اور 35 میٹر چوڑی اس مسجد میں 25 ہزار افراد اکٹھے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کا صحن 100 مربع میٹر کا ہے۔ مسجد کے چار داخلی دروازے ہیں اور دو میناریں ہیں۔

پوری مسجد سرخ ریت کے پتھر اور سفید سنگ مرمر سے بنی ہے۔ سفید سنگ مرمر کے تین گنبدوں پر سیاہ دھاریاں دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

مرکزی عبادت گاہ مسجد کے مغربی جانب ہے۔ یہاں بلند و بالا محرابیں بنائی گئی ہیں جو 260 ستونوں پر ہیں اور ان کے ساتھ ماربل کے تقریباً 15 گنبد ہیں۔ مسجد کے جنوبی جانب میناروں کا کمپلیکس 1076 مربع فٹ چوڑا ہے۔

مورخین کے مطابق اس وقت شاہ جہاں نے یہ مسجد 10 کروڑ روپے میں بنوائی تھی اور 5000 کاریگر اسے بنانے میں مصروف تھے۔

یوں تو عام بھارتیوں کی نظر میں یہ مسجد نماز کی جگہ سے پہچانی جاتی ہے، لیکن وقتاً فوقتاً اس کے احاطے سے ایسے پیغامات نکلتے رہتے ہیں، جو بھارت کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے خدشات کو دور کر دیتے ہیں۔ بھارت کو اپنے ایسے ورثے پر فخر ہے۔

مزید پڑھیں:

قومی دارالحکومت دہلی میں واقع شاہی جامع مسجد بھارت کے ان قیمتی ورثوں میں سے ایک ہے جس پر آج بھی بھارت کو فخر ہے۔ India Still Proudly Boasts Jama masjid

ویڈیو

فن تعمیر کی عظیم شاہکار ہونے کے علاوہ شاہی جامع مسجد کو سیاسی و ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے۔ تاہم بھارت کی جنگ آزدی شاہی جامع مسجد کا جو کردار رہا، اس سے آج بھی بہت سارے سے لوگ ناواقف ہیں۔ جامع مسجد کی یہ نادر تاریخی کہانی کسی خزانہ سے کم نہیں ہے۔ تو آئیے جانتتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں دہلی کی جامع مسجد کا کیا رول رہا۔ Magnificient Jama Masjid link to freedom struggle

آزادی کی جد و جہد میں جامع مسجد لاکھوں انقلابیوں کی پناہ گاہ بنی۔ اسی وجہ سے انگریزوں نے جامع مسجد کو طویل عرصے تک بند رکھا۔ طویل بندش کے بعد سنہ 1962 میں مسجد کو نمازیوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا۔

انقلاب اور بھارت کی آزادی کے علاوہ تقسیم ہند کے دوران بھی مسجد نے عوام تک مثبت پیغام پہنچایا۔ سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد جب بھارتی مسلمان سیاسی طور پر الجھن میں پھنسے ہوئے تھے کہ انہیں ملک چھوڑنا ہے یا نہیں۔ تب مولانا ابوالکلام آزاد نے اسی جامع مسجد کے احاطے سے بھارتی مسلمانوں کو خطاب کیا۔

مولانا نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ اب بھارتی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ مسلم لیگ کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم یہاں ہندوستانی کے طور پر ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے ہندستان سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔ مولانا آزاد نے اپنی تقریر میں بھارتی مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی۔

آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والے فوجیوں کی پناہ گاہ اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر کے علاوہ یہاں سے ایک اور انقلابی کہانی کی شروعات ہوئی۔ ایک غیر مسلم پنڈت یعنی سوامی شردھانند سرسوتی نے مسجد کی سیٹرھیوں سے ہندو مسلم اتحاد یعنی گنگا جمونی تہذیب کا پیغام دیا۔

یہ ہندستان کی سماجی و سیاسی محرکات کے لیے ایک اہم وقت تھا، کیوں کہ تب ملک میں ہندو مسلم بھائی چارے کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ ان کی تقریر شاید ہندوستان کی تاریخ کی سب سے شاندار تقریروں میں سے ایک تھی، جہاں بھگوا پوش ہندو پنڈت نے مسجد کی سیڑھیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا پیغام دیا تھا۔

آج بھی مختلف مواقع پر جامع مسجد کی بنیاد ہندوستانیت کے تانے بانے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، یوم آزادی کا جشن جامع مسجد کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔

بھارت کو جن عمارتوں پر فخر ہے ان میں سے ایک جامع مسجد بھی ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی اس عبادت گاہ کی بنیاد سنہ 1656 میں رکھی گئی تھی لیکن اس کے بعد سے یہ مسجد بھارت کے بھائی چارے کی بنیاد کو مضبوط کرتی آئی ہے۔

آج ہمیں ضرورت ہے ان علامتوں اور ان پیغامات کی جو ہندوستانیت کے تانے بانے کو مضبوط کریں۔ ایسے میں جامع مسجد ایک شاندار مثال ہو سکتی ہے۔

تعمیر کی بات کریں تو یہ قدیم ترین مسجد کاریگری اور نقش و نگار کے لحاظ سے بھی جدیدیت کا آئینہ دار ہے۔ پرانی دہلی کی یہ سب سے بڑی مسجد مغل بادشاہ شاہ جہاں کے شاندار فن تعمیر اور جمالیاتی احساس کا نمونہ ہے۔ 65 میٹر لمبی اور 35 میٹر چوڑی اس مسجد میں 25 ہزار افراد اکٹھے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کا صحن 100 مربع میٹر کا ہے۔ مسجد کے چار داخلی دروازے ہیں اور دو میناریں ہیں۔

پوری مسجد سرخ ریت کے پتھر اور سفید سنگ مرمر سے بنی ہے۔ سفید سنگ مرمر کے تین گنبدوں پر سیاہ دھاریاں دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

مرکزی عبادت گاہ مسجد کے مغربی جانب ہے۔ یہاں بلند و بالا محرابیں بنائی گئی ہیں جو 260 ستونوں پر ہیں اور ان کے ساتھ ماربل کے تقریباً 15 گنبد ہیں۔ مسجد کے جنوبی جانب میناروں کا کمپلیکس 1076 مربع فٹ چوڑا ہے۔

مورخین کے مطابق اس وقت شاہ جہاں نے یہ مسجد 10 کروڑ روپے میں بنوائی تھی اور 5000 کاریگر اسے بنانے میں مصروف تھے۔

یوں تو عام بھارتیوں کی نظر میں یہ مسجد نماز کی جگہ سے پہچانی جاتی ہے، لیکن وقتاً فوقتاً اس کے احاطے سے ایسے پیغامات نکلتے رہتے ہیں، جو بھارت کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے خدشات کو دور کر دیتے ہیں۔ بھارت کو اپنے ایسے ورثے پر فخر ہے۔

مزید پڑھیں:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.