دنیا میں بہت کم ایسی شخصیات جنم لیتی ہیں، جنہوں نے زندگی میں تو بے پناہ شہرت حاصل کی ہوتی ہے، لیکن مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگوں کے ذہنوں میں سر کر جاتے ہیں، اور انہیں بھلا نہیں پاتے، عظیم مصور مقبول فدا حسین بھی انہی شخصیات میں سے ایک تھے۔
سترہ ستمبر سنہ 1915 میں بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع سولاپور میں واقع پنڈھر پور میں پیدا ہونے والے مقبول فدا حسین (ایم ایف حسین) 'بھارت کے پکاسو' کے نام سے بھی مشہور تھے، کم عمری میں ہی والدہ کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد وہ والد کے ساتھ اندور آگئے جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہوجائیں، لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی طرف تھا، اور وہ دکان پر بیٹھتے تھے تو اس وقت بھی پنسل سے خاکے بناتے رہتے تھے۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی تھی، جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا، اور ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا 'بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو'۔ اس کے بعد ایم ایف حسین نے ممبئی آکر باضابطہ طور سے آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔
حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی، جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش سنہ 1947 میں ہوئی تھی۔ پچاس کی دہائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے، اور 60 کے عشرے سے انہیں بھارت کا نہایت تجربہ کار اور منجھے ہوئے مصور میں شمار کیا جانے لگا۔
ان کی اپنی مخصوص طرز زندگی تھی، وہ ننگے پاؤں رہاکرتے تھے، اور اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔
انہیں بھارت کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں 'پدم بھوشن' بھی شامل ہے۔ انہیں رکن پارلیمنٹ کے لیے بھی نامزد کیا گیا، جس قدر ایوارڈز انہیں ملے، ان کا شمار بھی ایک مشکل کام ہے۔
حسین اکثر اپنی تصویروں میں بھارت کے اساطیری کرداروں کو پیش کرتے تھے اور ایسی ہی ان کی بعض تصویریں تنازع کا سبب بھی بن چکی ہیں۔ انہوں نے بیرون ملک بھارت کی ثقافت،کلچر اور مذہبی روایات کواپنے انداز میں متعارف کرایا۔
وہ بھارت کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔
ان کا ایک شاہکار، جس کا نام انہوں نے 'ہارس اینڈ وومن' رکھا تھا، لندن میں ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے میں فروخت ہوا تھا۔ انھیں سنہ 1971 میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپولو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا، جہاں انھیں فوربس میگزین نے ''بھارت کا پکاسو'' کے خطاب سے نوازا تھا۔
ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے مادھوری دیکشت کے ساتھ 'گج گامنی' کے نام سے 'ٹیل آف تھری' سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوب صورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی شہرت کی وجہ مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔
اس سے قبل سنہ 1967 میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم 'تھرو دی آئیز آف اے پینٹر' کے لیے' گولڈن گلوب ایوارڈ' حاصل کیا ۔
اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں، وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے، نڈر تھے، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے، ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی پہلی خاتون وزیر اعظم پر خاص رپورٹ
ان کی پینٹنگز پر جہاں ایک طرف ستائش اور پذیرائی کی گئی تھی۔ تو وہیں دوسری جانب ان کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ستّر کی دہائی میں ان کی شہرت نے ایک نیا موڑ لیا، اور وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے۔
انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائیں جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاؤں کے مجسمے ہیں، لہذا اگر اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے، لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔ سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیے گئے۔
ستمبر 2007 میں کیرالا کے ہائی کورٹ نے حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی، جبکہ کیرالہ حکومت نے اس برس مصوری کا معروف 'راجہ روی ورما ایوارڈ، فداحسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا'۔
ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلسل مظاہرے کے بعد ایم ایف حسین ملک چھوڑ دبئی جاکر رہنے لگے۔
عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصور مقبول فدا حسین 9 جون سنہ 2011 کو 97 برس کی عمر میں لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔